عہد مزاحمت کا شاعر

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

بلوچ قوم کی تاریخ قربانیوں، جدوجہد اور مزاحمت سے بھری ہوئی ہے۔ اس قوم نے ہمیشہ آزادی، انصاف اور انسانی وقار کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کیں اور اپنی مٹی سے بے مثال محبت کا ثبوت دیا۔ انہی لازوال شخصیات میں ایک نام قاضی مبارک کا ہے، جو بلوچی زبان کے بڑے اور انقلابی شاعر مانے جاتے ہیں۔ قاضی مبارک کی وفات 16 ستمبر 2023 کو ہوئی، لیکن ان کی شاعری، فکر اور جدوجہد آج بھی زندہ ہے اور آنے والی نسلوں کو حوصلہ دیتی رہے گی۔

قاضی مبارک نے بلوچ قوم کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ ان کی شاعری میں محض مزاحمت نہیں بلکہ سماج کو بدلنے کا خواب بھی شامل تھا۔ انہوں نے مظلوم ماہیگیروں اور کسانوں کی محرومیوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ قاضی مبارک انسانی اقدار کے شاعر تھے، جو سماجی انصاف کو اپنا مقصد سمجھتے تھے۔ وہ روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کے مالک تھے، جنہوں نے بلوچی ادب کو ایک نئی جہت دی۔ ان کا تخلیقی سرمایہ نہ صرف بلوچی زبان بلکہ پاکستانی ادب کے لیے بھی ایک بڑا اثاثہ ہے۔

بلوچی شعر و ادب کا کوئی تذکرہ قاضی مبارک کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ سندھی زبان کے شاعر شیخ ایاز اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کی طرح اپنی قوم کے نمائندہ شاعر تھے۔ ان کے لہجے میں جہاں گھن گرج اور انقلابی سرکش لہجے کی بازگشت سنائی دیتی ہے، وہیں رومانیت کی لطافت بھی جھلکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عوامی اور ادبی بھی ہے۔

قاضی مبارک کی زندگی صرف کاغذ اور قلم تک محدود نہیں رہی بلکہ عملی جدوجہد سے جڑی رہی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما عبدالحمید بلوچ کو عمانی فوج میں بھرتی کے خلاف آواز بلند کرنے پر پھانسی سنائی گئی، تو اس وقت بلوچستان کے نوجوانوں کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ قاضی مبارک بھی اس احتجاج میں پیش پیش تھے اور انہیں بھی جیل کی سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ مچھ جیل کے اندھیروں میں انہوں نے وہ صعوبتیں برداشت کیں جنہیں سہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔

ضیا دور میں عمان کے سلطان قابوس کی فوج میں بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کیا جا رہا تھا تاکہ عمانی عوام کی تحریکِ مزاحمت کو کچلا جا سکے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اس کے خلاف تحریک شروع کی اور واضح کیا کہ بلوچ کسی دوسری قوم پر قابض یا کرائے کے فوجی نہیں بنیں گے۔ یہ ایک تاریخی موڑ تھا جس میں بلوچوں نے مراعات اور عہدے ٹھکرا کر مظلوم عرب عوام کا ساتھ دیا۔ اسی تحریک کے دوران 22 سالہ طالب علم رہنما حمید بلوچ گرفتار ہوئے اور بعد ازاں پھانسی پر چڑھا دیے گئے۔ اس قربانی نے بلوچ قومی شعور کو مزید جلا بخشی۔

قاضی مبارک نے نہ صرف اپنی جوانی اس جدوجہد میں صرف کی بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی قربانیاں دیں۔ ان کے اکلوتے بیٹے، ڈاکٹر قمبر بلوچ، نے سرمچاری کی زندگی گزارنے کے بعد شہادت نوش کی۔ ایک باپ کے لیے بیٹے کی میت کو کندھوں پر اٹھانا کتنا کٹھن لمحہ ہوتا ہے، یہ قاضی مبارک کی ہمت اور حوصلے ہی کا ثبوت ہے کہ وہ اس دکھ کو سہتے ہوئے بھی اپنی قوم کے ساتھ کھڑے رہے۔

قاضی مبارک کی شاعری میں عوامی رنگ نمایاں ہے۔ وہ مظلوم کی آواز اور محکوم کا نعرہ بن گئے تھے۔ ان کی نظموں میں جہاں جدوجہد اور مزاحمت کی جھلک ہے وہیں محبت، رومانیت اور فطرت کی خوبصورتی بھی جھلکتی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت تخلیق کار تھے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو بیداری اور مزاحمت کا پیغام دیا۔

انہوں نے خود کہا تھا:
"قدردانی کی یہاں شرط بس اک موت ہے
آپ کی بھی قدر ہوگی، پہلے مر تو جائیے”

یہ اشعار ان کے لہجے کی تلخی اور حقیقت پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔

قاضی مبارک سے میری پہلی ملاقات پسنی میں اس وقت ہوئی جب میں طالب علم تھا۔ اس کے بعد کئی ملاقاتیں رہیں۔ ایک دن ہم گوادر سے پسنی جا رہے تھے کہ پاکستان کوسٹ گارڈ نے ہمیں روک کر شناخت پوچھ لی۔ قاضی نے بڑے فخر سے جواب دیا: "ہم اس سرزمین کے وارث ہیں اور وارث سے اس کی سرزمین پر شناخت نہیں پوچھی جاتی۔” یہ جملہ ان کے اندر موجود خودداری اور قومی وقار کی علامت تھا۔

پسنی کے ریتیلے ٹیلوں پر، سمندر کے کنارے چاندنی راتوں میں، جب بوتلوں اور گلاسوں کی آواز کے بیچ قاضی کی شاعری گونجتی تھی تو وہ منظر آج بھی یادوں میں تازہ ہے۔ پسنی کی ریت، سمندر اور قاضی کی شاعری ایک ایسا امتزاج تھا جو زندگی کو ایک اور معنویت دیتا تھا۔

پسنی کا شہر اپنی خوبصورتی اور ادبی روایت کے لیے مشہور رہا ہے۔ یہاں سے بڑے نامور شخصیات سامنے آئیں، جن میں شاعر انور صاحب خان، گلوکارہ گل جان گلو، گلوکار نصیر پسنی والا، اداکار انور اقبال اور دیگر شامل ہیں۔ انور صاحب خان نہ صرف شاعر بلکہ تھیٹر رائٹر بھی تھے جو ماہی گیروں کی مشکلات کو ڈراموں کے ذریعے اجاگر کرتے تھے۔ قاضی مبارک اور انور صاحب خان دونوں میرے قریبی دوست رہے، اور ان کے ساتھ کی یادیں آج بھی دل میں زندہ ہیں۔

قاضی مبارک اپنی زندگی کے آخری ایام تربت کے علاقے سنگانی سر میں گزار رہے تھے، جہاں سے 16 ستمبر 2023 کو وہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان کے جسد خاکی کو تربت سے پسنی ایک ریلی کی شکل میں لایا گیا۔ پسنی کی گلیاں سوگوار ہو گئیں، اور پورا شہر صفِ ماتم میں ڈوب گیا۔ بلوچستان اپنے ایک بہادر اور انقلابی شاعر سے محروم ہوگیا۔

قاضی مبارک کی شاعری صرف ادب نہیں بلکہ تاریخ ہے۔ ان کی نظموں میں وہی جذبہ ہے جو بلوچ نوجوانوں کو مزاحمت اور قربانی کی راہ دکھاتا ہے۔ ان کی شخصیت ایک مشعل راہ ہے جس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی۔ ان کی جدوجہد اور شاعری اس بات کا اعلان ہے کہ بلوچ کبھی کرائے کے فوجی نہیں بنیں گے بلکہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیں گے۔

قاضی مبارک کی زندگی اور شاعری ایک مکمل داستان ہے۔ وہ صرف شاعر نہیں بلکہ ایک عہد تھے۔ ان کی موت نے بلوچستان کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن ان کی شاعری اور فکر ہمیشہ زندہ رہے گی۔ آج جب میں پسنی کو دیکھتا ہوں تو وہاں کے ریتیلے ٹیلے اور ساحل مجھے قاضی اور انور صاحب خان کی یاد دلاتے ہیں۔ دونوں اب نہیں رہے، لیکن ان کی یادیں اور ان کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ دونوں کو میرا سرخ سلام!

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچستان میں مظالم کے خاتمے اور زندگیوں کے تحفظ کے لیے پاکستان پر عالمی دباؤ ڈالا جائے۔ جان میکڈونل

منگل ستمبر 16 , 2025
معروف برطانوی رکن پارلیمنٹ جان میکڈونل نے جنیوا میں ساتویں عالمی بلوچستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا برطانیہ کے نقطۂ نظر سے ہمارا مؤقف یہ ہے کہ برطانوی حکومت کو بلوچ عوام کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے — چاہے وہ برطانیہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ