
کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ بلوچ طالب علم زاہد علی کی گمشدگی کے خلاف قائم احتجاجی کیمپ کو پیر کے روز بھی ملتوی کرنا پڑا، کیونکہ زاہد کے والد عبدالحمید بلوچ کی طبیعت بدستور ناساز ہے۔
اہلخانہ کے مطابق عبدالحمید بلوچ پہلے ہی ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں اور گزشتہ روز طبیعت بگڑنے پر انہیں قریبی کلینک منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے سخت آرام کا مشورہ دیا۔ اسی وجہ سے اہلخانہ کو دو روز سے بھوک ہڑتالی کیمپ عارضی طور پر ختم کرنا پڑا۔
زاہد علی کے والدین اور رشتہ دار ایک ماہ سے زائد عرصے سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل سیکورٹی فورسز نے زاہد کو رکشہ سمیت حراست میں لیا تھا اور وہ تاحال نامعلوم مقام پر قید ہیں۔
اہلخانہ نے بتایا کہ زاہد کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ رکشہ چلا کر گھر کا خرچ اور بیمار والد کے علاج کا بندوبست کرتا تھا۔ اس کی جبری گمشدگی نے پورے خاندان کو شدید ذہنی اور معاشی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
زاہد کے والدین اس سے قبل ماڑی پور کے قریب بھی دھرنا دے چکے ہیں جہاں پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے معلومات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن تاحال کسی ادارے کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
زاہد علی کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ “میرا بیٹا والدین کا واحد سہارا تھا۔ گھر کا چولہا اسی کی محنت سے جلتا تھا، مگر جب سے وہ لاپتہ ہوا ہے ہمارا سکون اور سہارا چھن گیا ہے۔”
اہلخانہ نے ایک بار پھر حکومت، عدلیہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ زاہد علی کو منظر عام پر لایا جائے اور اس کی بحفاظت بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔