
کراچی پریس کلب کے باہر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ بدستور جاری ہے، جو جمعرات کے روز اپنے 38ویں دن میں داخل ہوگیا۔ کیمپ میں لاپتہ نوجوانوں کے والدین اور اہل خانہ انصاف کے حصول اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے پر مسلسل بیٹھے ہیں۔
لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو کسی جرم کے بغیر گن پوائنٹ پر اغوا کیا گیا ہے۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو شفاف عدالتی کارروائی کے ذریعے عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زاہد ایک بے قصور اور محنتی نوجوان ہے جو پورے گھر کی کفالت کر رہا تھا، لیکن ریاستی اداروں نے اسے لاپتہ کر کے پورے خاندان کو اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔
عبدالحمید بلوچ کا کہنا تھا کہ ریاست کا بنیادی فرض شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے، مگر یہاں شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے، جو آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر میرے بیٹے کو صرف بلوچ شناخت کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے تو یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی اور امتیازی رویے کی مثال ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے درجنوں بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں، جن میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے رہائشی شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ کارکنوں کے مطابق یہ تمام نوجوان متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی گمشدگی نے اہل خانہ کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
مظاہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔