
تحریر: کامریڈ کازی
زرمبش مضمون
بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں ماؤں کے جگر لاپتہ ہیں۔ کچھ کو چار سال، کچھ کو دس سال، اور کچھ کو پندرہ سال پورا ہوچکا ہے، مگر کسی کو یہ نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہیں۔ کیا وہ ریاست کے اذیت خانوں میں زندہ ہیں یا نہیں، مگر سلام ہے ان ماؤں کو کہ وہ اس درد کو برداشت کر رہی ہیں۔ وہ یہ اُمید لگا کر بیٹھی ہیں کہ ایک دن ضرور ان کے شہزادے آئیں گے اور خاندان میں وہ خوشی دوبارہ لوٹے گی جو برسوں سے رخصت ہوچکی ہے۔ مگر کیا پتہ یہ باتیں سچ ثابت ہوں گی یا نہیں۔
کچھ ماؤں کا انتظار چند ہی عرصوں میں ختم ہوگیا، ان کی اُمید کا چراغ بجھ گیا کیونکہ ان کے پیاروں کی مسخ شدہ لاش کسی ویران علاقے میں مل گئی، اور پھر ریاست نے اسے کسی اور رنگ دے کر دنیا کے سامنے ’’چھڑپ‘‘ یا ’’جھوٹے مقابلے‘‘ کا نام دے کر کیس ختم کردیا۔ یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان میں دہرایا جا رہا ہے، مگر پھر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں۔ کیوں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے اقوام متحدہ اور ان پارٹیوں کے لیے جو انسانی حقوق کی باتیں کرتی ہیں۔
بلوچستان میں ریاست انسانی حقوق کی پامالی کر رہی ہے، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ چاہے وہ فیک انکاؤنٹر کی صورت میں ہو یا ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی شکل میں۔ ایک ہی دن میں تین لوگوں کو ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے قتل کر دیا، مگر کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس کی مذمت نہیں کی۔ کیوں؟ یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے گریشہ میں دو نوجوان، اقبال حکیم اور نعیم شئے محمد، کو قتل کر دیا گیا، کسی نے کچھ نہیں کہا۔ ہر مہینے کے آخر میں رپورٹ دیکھنے کو ملتی ہے کہ درجنوں بلوچ نوجوان لاپتہ ہوئے ہیں اور کئی کی لاشیں مل چکی ہیں۔
ریاست نے بی وائی سی کو اسی لیے خاموش کر دیا تاکہ اُس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور وہ کھل کر بلوچ نسل کشی کرے۔ بی وائی سی کی قیادت کو دن بہ دن جیل میں تاریخ پر تاریخ دی جاتی رہی۔ دوسری طرف بی این پی کے جلسوں پر خودکش حملے کروائے گئے۔ میرے نظر میں، بی وائی سی کے مقبول لیڈر ماہ رنگ بلوچ کو جیل میں رکھ کر ریاست یہ پیغام دے رہی ہے کہ ماہ رنگ کی آواز انٹرنیشنل تک گئی تھی، میں نے اسے جیل میں ڈال دیا اور اسے ہراساں کیا، تو ایک عام بلوچ کی حیثیت کیا ہے؟ بی این پی کے جلسے پر حملہ کروایا گیا تاکہ آئندہ لوگ کسی جلسے یا قومی محفل میں جمع نہ ہوں۔ اب داعش کا نام دیا جا رہا ہے، لیکن گوادر میں راجی مچ اور حب میں سمین دین پر حملے ریاست کے ڈیتھ اسکواڈ نے کیے، اور لکپاس میں اختر مینگل پر بھی خودکش حملے کی کوشش کی گئی۔ وہ داعش نہیں تھی۔
ریاست اپنے ظلم کو کبھی بھی چھپا نہیں سکتی، وہ روزِ روشن کی طرح ہر بلوچ کے سامنے ہے۔ بلوچستان میں ایسا کوئی خاندان اور کوئی گھر نہیں بچا جس نے پیاروں کی جدائی کا درد نہ دیکھا ہو۔ یہ آہ و بکا ہر بلوچ کے گھر تک پہنچی ہے۔ اگر ہم توتک کی مثال لیں تو وہاں ریاست نے اپنے خونخوار، یا ہم کہیں انسان خور شقیق مینگل کو آپریشن کے نام پر بھیجا۔ اس نے پورے شہر کو لپیٹ میں لے لیا اور کچھ ماہ بعد کسی پہاڑ میں ایک سو پچاس سے زائد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں اور کچھ آج تک بھی لاپتہ ہیں۔ کیا پتہ وہ زندہ ہیں یا نہیں، کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ ان ایک سو پچاس لاشوں کی طرح شاید ریاست نے دیگر لاشوں کو بھی کسی اور پہاڑ میں دفن کر دیا ہے۔ کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔ یہ ہزاروں قصے اور واقعات ہیں جو ایک ہی مضمون میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔