
تحریر: ساہ دیم بلوچ
زرمبش مضمون
وہ صرف لوہا، بارود یا دھات کے پرزوں سے بنی کوئی مشین نہیں اٹھاتا۔ اس کے کندھے پر رکھا ہوا ہتھیار محض ایک آلۂ جنگ نہیں ہوتا، بلکہ یہ بندوق اُس کا شعور بن جاتی ہے، اُس کی تاریخ، اُس کی شناخت اور اُس کا نظریہ۔ وہ جب اسے اٹھاتا ہے تو دہائیوں کی غلامی، اجداد کی چھینی گئی آزادی، ماؤں کی آنکھوں میں جمے آنسو اور قوم کے چھینے گئے باوقار مستقبل کا فرض اپنے کندھے پر لاد لیتا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں تھمی ہوئی بندوق ایک سرد دھاتی شے نہیں رہتی، بلکہ ایک نظریاتی ہتھیار میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی بندوق اُس کی زبان، اُس کا بیان اور اُس کا مؤقف بن جاتی ہے، جس سے وہ گولیوں کی صورت میں اپنی آزادی بو دیتا ہے۔جب جنگ کے دوران اُس کی انگلی "ٹریگر” پر ٹھہرتی ہے تو وہ محض ایک حملہ نہیں کرتا، بلکہ وہ کالونیل پر تاریخ کا ایک تازیانہ برساتا ہے۔ وہ تاریخ، جو قابض نے جبر اور جنگی جرائم سے لکھی تھی، اب ایک سرمچار اپنی بندوق سے ازسرِنو تحریر کرتا ہے۔ سرمچار کے کندھے پر لٹکی بندوق اُس کا وجود بن جاتی ہے؛ وہ اسے اپنے شجرۂ نسب کی مانند سینے سے لگا لیتا ہے۔ وہ بارود کے لمس میں اپنی گل زمین کی خوشبو سونگھتا ہے، اور اُس کا ہر وار محاذ کی سانس، دھڑکن اور ایندھن میں ڈھل جاتا ہے۔یہ اُس کا قومی شعور ہے، جو راتوں کو جاگتا ہے، طویل سفر طے کرتا ہے،پگڈنڈیوں، چٹانوں، ریتلی زمینوں، پہاڑوں اور تنگ درّوں میں پچاس سینٹی گریڈ کی جھلسا دینے والی گرمی ہو یا نقطۂ انجماد کی سردی، وہ اپنی قومی ذمہ داریاں کاندھے پر اٹھا کر اپنے مشن اور اپنے ہدف کی جانب نکل کھڑا ہوتا ہے۔
وہ بندوق، جس کے پیچھے کوئی اندھی وحشت نہیں، بلکہ ایک باشعور اور بیدار مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ گولی، جو دشمن کی پیٹھ کو چھیدتی ہے، دراصل اُس سرمچار کا اظہار ہے جو نظریاتی پختگی سے لیس ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر بندوق شعور سے خالی ہو تو وہ صرف وحشت بن جاتی ہے؛ لیکن اگر شعور سے لبریز ہو تو وہ ایک قوم کی قندیل، تجدیدِ عہد اور نجات دہندہ بن جاتی ہے۔سنگر، مورچے اور پناہ گاہیں سرمچار کی عبادت گاہیں ہیں۔ جب انہی سنگروں سے بندوق نمودار ہوتی ہے تو وہ محض ایک ہتھیار نہیں رہتی، بلکہ ایک فکری اظہار میں ڈھل جاتی ہے،ایسا اظہار جو جبر کے ہر برج کو لرزا دیتا ہے۔اسی سیاق و سباق میں، جب ہم بلوچ تحریکِ آزادی کی بات کرتے ہیں تو بلوچ "سرمچار” محض ایک جنگجو یا مہم جو نہیں رہتا، بلکہ ایک نظریاتی سپاہی، ایک شعور یافتہ مزاحمت کار اور ایک قومی محافظ کے روپ میں ابھرتا ہے۔جب سرمچار اپنے بندوق کا "ٹریگر” تھام کر دشمن کو نشانے پر رکھتا ہے تو اُس کی بندوق سے نکلنے والی گولی محض دشمن کے جسم کو چھیدنے کا عمل نہیں ہوتی، بلکہ وہ گولی قبضے، غلامی، استحصال اور نسل کشی کے خلاف ایک دھماکہ بن جاتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب بارود فکر میں تحلیل ہوتا ہے اور مزاحمت کی کوکھ سے آزادی کی تخلیق جنم لیتی ہے۔ اُس ایک گولی میں نہ صرف غصہ پوشیدہ ہوتا ہے بلکہ ایک شعوری مؤقف، ایک تاریخی ردِعمل اور ایک قومی عزم بھی سمٹ آتا ہے۔
بندوق بظاہر تو ایک بےجان دھات کا مجموعہ ہے: کسی بھٹی میں پگھلی، کسی مشین کی چیخ میں ڈھلی، اور کسی کارخانے کے فرش پر پڑی رہنے والی ایک سرد اور بےروح شے۔ مگر جب یہی بندوق ایک مقبوضہ قوم کے سرمچار کے ہاتھ میں آتی ہے تو اس میں ایک عجیب سی زندگی دوڑنے لگتی ہے—جیسے کسی مٹی کے بت میں روح پھونک دی گئی ہو۔ سرمچار جب اسے اپنے کندھے پر سجاتا ہے تو وہ صرف دفاعی نہیں رہتا، بلکہ ایک نظریاتی مورچہ اختیار کرتا ہے۔ وہ دشمن کے ہر وار کا جواب دیتا ہے اور ہر فائر میں اپنی قوم کے اذیت ناک لمحوں کا حساب رکھتا ہے۔ اس کی بندوق سے نکلنے والی ہر گولی قابض کی جبر و بربریت پر ایک کاری ضرب ہوتی ہے۔نوآبادیاتی قوتوں کو بندوق سے نہیں، بلکہ اس کے پیچھے موجود اُس روح سے خوف ہوتا ہے جو بندوق کی نالی کے عقب سے جھانکتی ہے۔وہ روح جو غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی ہمت رکھتی ہے۔ اُنہیں اصل خوف اُس نظریے سے ہوتا ہے جو لال گولیوں کو جنم دیتا ہے؛ اُس شعور سے، جو بندوق کو وحشت کا نہیں بلکہ وقار کا ہتھیار بناتا ہے۔قابض ریاست بندوق کے جواب میں بندوق لاتی ہے: جنگی طیارے، توپیں، بارود، جاسوس ڈرون، سرویلنس نظام اور کرائے کے تنخواہ دار سپاہی۔ مگر جب اُن کے سامنے ایک نظریاتی سرمچار کھڑا ہوتا ہے،وہ جو شعور، عزم اور قربانی سے لیس ہو—تو ریاست کے تمام جنگی وسائل شکست کھا جاتے ہیں۔ یہ دراصل وطن دوست راج دوست نظریے کی فتح ہے؛ شعور کی وہ برتری جو نہ چھینی جا سکتی ہے، نہ جلائی جا سکتی ہے، نہ دفن کی جا سکتی ہے۔کیونکہ وہ بندوق، جس کے پیچھے قومی شعور ہو، ایک عام ہتھیار نہیں رہتی؛ وہ ایک رومان بن جاتی ہےایک ایسی علامت، جو دہائیوں کے ظلم کے خلاف ایک مکمل اور پائیدار انکار کی صورت دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد دلاتی ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بندوق صرف تب تک جبر کی علامت رہتی ہے، جب تک وہ استحصال کار کے حق میں اٹھائی جائے۔ لیکن جب یہی بندوق مقبوضہ کے ہاتھ میں آتی ہے، اُس کے شعور کے تابع ہو جاتا ہے، تو وہ بندوق ایک مقدس علامت میں ڈھل جاتی ہے۔ پھر وہ نہ صرف دشمن کی دیواریں گراتی ہے بلکہ غلامی کے بتوں کو بھی پاش پاش کر دیتی ہے۔آزادی کی تحریکوں میں بندوق کو محض ایک مادی ہتھیار کے طور پر نہیں، بلکہ ایک نظری علامت کے طور پر دیکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس علامت میں قربانی کا فلسفہ بھی شامل ہوتا ہے اور انقلاب کی نوید بھی۔ یہ بندوق محض ایک ہتھیار نہیں رہتی، بلکہ اُس لمحے کی مجسم علامت بن جاتی ہے، جب غلامی سینے پر پتھر بن کر بیٹھ جائے اور سانس لینا بھی اطاعت کی توہین محسوس ہونے لگے۔ جب صدیوں کی خاموشی زبان کو زنجیر بنا دے، اور شعور اس نہج پر پہنچ جائے کہ خاموشی بزدلی اور صبر گناہ محسوس ہونے لگےتو وہی لمحہ بندوق کی پیدائش کا ہوتا ہے۔بلوچ سرمچار کی بندوق صحرا کی تپتی ہوا کی مانند ہے،اس کے وجود میں وہ گولی دھڑکتی ہے جو کسی جابر کے سینے کو چیرنے سے پہلے کسی ماں کی کوکھ میں پلتے خواب کی حفاظت کا حلف لیتی ہے۔ وہ گولی کسی نفرت کا پھل نہیں، بلکہ ایک نظریے کا اعلان ہے؛ ایسا نظریہ جو صدیوں سے لوٹی ہوئی شناخت، پامال غیرت اور اجتماعی گم نام قبروں کی چیخوں سے جنم لیتا ہے۔اس بندوق میں مجسم صرف بارود نہیں ہوتا، بلکہ تاریخ کا بار گراں بھی شامل ہوتا ہےوہ تاریخ جسے ہر قابض نے مسخ کیا، مگر جسے ہر نسل نے اپنے خون سے دوبارہ تحریر کیا۔
قومی شعور کے بغیر مزاحمت محض ایک ردِعمل ہوتی ہے، مگر جب بندوق شعور سے لبریز ہو اور نظریے سے منور ہو، تو وہ محض ایک تنازعہ نہیں رہتی بلکہ ایک جدوجہد بن جاتی ہے،ایک آزاد اور زندہ قوم کی شناخت۔ ایسی قوم، جس کی رگوں میں خاموشی نہیں بلکہ آگ بہتی ہے؛ جس کے جسم میں دوڑتا ہوا خون طوفان کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔آزادی کی شاہراہ پر چلنے والے سرمچاروں کے کندھے پر لٹکی بندوق محض ایک آلۂ قتل نہیں رہتی، بلکہ تاریخ کا وہ لوح و قلم بن جاتی ہے جس سے مقبوضہ قومیں اپنی تقدیر لکھتی ہیں۔ یہ وہ سیاہی ہے جو خون سے بہتی ہے، اور وہ حروف ہیں جو زنجیروں کی جھنکار کو لفظوں میں ڈھال کر سماجی بیداری کا آغاز کرتے ہیں۔یہ بندوق اس سرمچار کے ہاتھ میں ایک مقدس قومی امانت ہے، جو صدیوں کی خاموشی کو توڑنے نکلا ہے۔ جب وہ اسے تھامتا ہے تو گویا کوئی شاعر قلم اٹھاتا ہے، مگر یہاں اشعار بارود کی خوشبو میں لپٹے ہوتے ہیں، اور ہر گولی ایک مصرع کی مانند اپنے ہدف پر اترتی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو اُن کے لبوں پر آتی ہے جنہیں تاریخ نے کبھی بولنے کی اجازت نہ دی۔ یہ وہ آواز ہے جو ماؤں کے چھن گئے بیٹوں، بہنوں کے نوچے گئے خوابوں اور باپوں کی گمنام قبروں سے بلند ہوتی ہے۔اور پھر یہی بندوق ایک آنکھ بھی بن جاتی ہےایسی آنکھ جو نہ صرف حال کے اندھیروں کو چیرتی ہے بلکہ مستقبل کی روشنی کو بھی دیکھ لیتی ہے؛ وہ روشنی جو ابھی طلوع نہیں ہوئی، مگر سرمچار کے شعور میں پہلے ہی جگمگا رہی ہے۔ بندوق کی نالی جب سورج کی کرن کو چھوتی ہے، تو وہ محض گولی نہیں بلکہ اگلے لمحے کی امید برساتی ہے۔یہ قتل کی ترجمان نہیں، بقا کی گواہی ہے۔ یہ اُن ہاتھوں میں ہے جو امن کے پیاسے ہیں، مگر غلامی کو قبول نہیں کرتے۔ اور یہی اس کا اصل جوہر ہے: ایک تخلیقی قوت، جو غلامی کے ملبے پر ایک نئی، آزاد اور خودمختار سماج کی تعمیرِ نو کی بنیاد رکھتی ہے۔
قومی تحریک، ہر انقلابی کہانی اور ہر آزادی کی جدوجہد کے پسِ پردہ صرف نعرے یا قراردادیں نہیں ہوتیں؛ وہاں بارود کی مہک، گولی کی تپش اور بندوق کی دھڑکن بسی ہوتی ہے۔ وہاں سرمچار کے کندھے پر لٹکا ہوا بی۔ایم-12 کا راکٹ محض دھات نہیں بلکہ ایک للکار ہوتا ہے۔ سنائپر کی گرج صرف دشمن کا سینہ نہیں چیرتی بلکہ خاموشی کی دیواروں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ ایک دستی بم، ایک ڈیٹونیٹر، ایک مقناطیسی بم یہ جان نثاراں وطن کا کل سامانِ زیست بن جاتے ہیں۔ سرمچار کی دنیا وہ کائنات ہے جہاں سورج بارود کی چمک سے طلوع ہوتا ہے، اور راتیں دشمن کی چوکیوں پر چھائے سائے بن کر اترتی ہیں۔ اُس کے لیے میگنٹ بم گوریلا جنگ کی وہ خاموش دعا ہے، جو وہ دن کے سناٹوں اور رات کی دھڑکنوں میں مانگتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کے ایوانوں میں بیٹھے بہرے حکمرانوں کو صرف خون سے لکھی گئی دلیل ہی سمجھ آتی ہے؛ اسی لیے وہ فدائیانہ عمل سے اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو بھی دھماکوں میں جھونک دیتا ہے۔بھگت سنگھ نے کہا تھا: "بہروں کو سنانے کے لیے دھماکے کی ضرورت ہوتی ہے۔” اور سرمچار یہ دھماکہ صرف آواز کے لیے نہیں، شعور کے لیے کرتا ہے۔ یہ اُس شور کا آغاز ہے جو غلامی کی جڑوں میں زلزلہ ڈال دیتا ہے۔ وہ بم، جو پہاڑی وادی میں پھٹتا ہے، اس کی گونج قابض کے ایوانِ اقتدار تک پہنچتی ہے اور اُن کی سنگین دیواروں میں ایک دراڑ ڈال دیتی ہے۔یہ گولی، یہ راکٹ، یہ بارود صرف جنگی سامان نہیں، بلکہ انسانی وقار کے وہ ہتھیار ہیں جو عزتِ نفس کو دفن نہیں ہونے دیتے۔
بندوق بذاتِ خود ایک غیر جاندار شے ہے،سرد دھات اور پیچ و پرزوں کا ایک بےحس امتزاج، جو خاموشی سے کسی گوشے میں پڑی رہتی ہے، جب تک کہ کوئی ہاتھ اسے اٹھا کر اپنے نظریات کی سانس نہ دے۔ وہ بندوق، جو کسی الماری میں خاموش اور وقت سے بےخبر پڑی ہو، نہ قاتل ہے نہ منصف۔ مگر جیسے ہی کسی ہاتھ کی انگلی اس کے لبلے پر ارتعاش پیدا کرتی ہے، تو ایک فیصلہ صادر ہو جاتا ہے ظالم اور مظلوم کا، غلامی اور آزادی کا ، فناء اور بقاء کا۔ جب یہی بندوق کسی جابر سلطنت، کسی نوآبادیاتی شکنجے اور کسی خون آشام اقتدار کے خلاف استقامت کا پرچم بن جائے، تو وہ محض گولی چلانے والا آلہ نہیں رہتی، بلکہ ایک نظریاتی مینار بن جاتی ہے۔ اس کی نالی سے نکلنے والی گولی صرف گوشت نہیں چیرتی بلکہ صدیوں کی خاموشی، تحریر کی گئی جھوٹی تاریخ اور تھوپے گئے بیانیے کو بھی چاک کر دیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بندوق اور نظریے کا رشتہ جنم لیتا ہےایسا رشتہ جو بارود سے نہیں بلکہ شعور سے بندھا ہوتا ہے۔ایک سرمچار جب بندوق اٹھاتا ہے تو دراصل وہ اپنی نسلوں کے ساتھ کیا گیا وعدہ نبھاتا ہے: کہ وہ تاریخ کو اس کے اصل روپ میں لکھے گا، اور اپنی زمین کے سینے پر کسی زنجیر کو برداشت نہیں کرے گا۔ بندوق تب ہی چلتی ہے، جب دلیل کے دروازے بند ہو جائیں، جب امن کی باتیں سراب لگنے لگیں اور جب کسی قوم کو محض رعایا یا غلام بنا دیا جائے۔یوں ایک سرد دھاتی آلہ، ایک قوم کے شعور کی زبان، ایک خواب کا محافظ اور ایک خاموش قسم بن کر تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔
جب ایک سرمچار اپنے رائفل کی ٹریگر پر انگلی موڑ لیتی ہے تو وقت کی سانسیں تھم جاتی ہیں، اور فضا میں ایک غیر مرئی لرزش پھیل جاتی ہے۔ اُس لمحے اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہتھیار صرف ایک رائفل نہیں رہتا؛ وہ اس کے یقین کی توسیع بن جاتا ہے، سرمچار کا بدن اسلحے سے نہیں، بلکہ آزادی کی ایک حقیقی یقین سے توانائی پاتا ہےایسا یقین جو کسی ذاتی انتقام، وقتی ردعمل یا غصے سے نہیں، بلکہ ایک عظیم، ہمہ گیر قومی آدرش سے جنم لیتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں جو چمک ہے، وہ فتح کی ہوس نہیں، آزادی کی تڑپ ہے۔ اس کا ہر قدم، جو پہاڑوں پر رکھتا ہے، ایک عہد ہے؛ اس کی ہر سانس، جو بارود کی بو میں گم ہوتی ہے، ایک دعا ہےکہ اس کی قربانی وقت کے صفحے پر محض ایک لمحہ نہ ہو، بلکہ ایک ایسی لکیر بن جائے، جو آنے والی نسلوں کو سمت دے۔اس کی مزاحمت کو ریاست ایک انسرجنسی ،شورش، انتشار اوع بغاوت کا نام دیتے ہیں، مگر وہ خود جانتا ہے کہ یہ مزاحمت دراصل ایک اعلیٰ نصب العین کی تجسیم ہے۔ یہ وہی نصب العین ہے، جس نے اسے ماں کی گود، باپ کا سایہ، اور زندگی کے سب رنگوں سے جدا کر کے بندوق کا ساتھی بنایا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ جس راہ پر ہے، وہ کانٹوں بھری ہے، لیکن یہی راستہ وہ ہے جس پر چل کر تاریخ بنائی جاتی ہے۔بلوچ تحریک کا جوہر محض بندوق کی گرج میں نہیں، اُس کی حوصلوں میں ہے جو ہر سرمچار کے زہن میں دھڑکتا ہے۔ یہاں بندوق کوئی وحشی آلہ نہیں، نہ ہی انتقام کی اندھی آگ ہے۔ یہ وہ شعوری ہتھیار ہے جو صدیوں سے مسخ کیے گئے وجود کی بازیابی کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس کا مقصد کسی فرد کو نیست و نابود کرنا نہیں، بلکہ اُس نظام کو چیلنج کرنا ہے جو اس دھرتی پر جبر کی بنیاد پر قائم کیا گیا، اور جس نے بلوچ قوم کی شناخت کو مٹا دینے کی ہر کوشش کی۔
جب کوئی سرمچار ریت سے اٹھتا ہے، چادر درست کرتا ہے، اور دشمن کو اپنی بندوق کی نالی کے سامنے دیکھتا ہےتو وہ گولی سے پہلے اپنی تاریخ یاد کرتا ہے۔ اُسے اپنے کوچہ و دمگ کی جلائی گئی مٹی کی خوشبو آتی ہے، اپنی ماں کے آنسو، اپنے باپ کی خالی نگاہیں، اور ان جوانوں کی لاشیں نظر آتی ہیں جو جعلی مقابلوں میں قتل کئے گئے اور تب، اس کی بندوق محض آتشیں دھات نہیں رہتی وہ شعور بن جاتی ہے، جب وہ دشمن کو ہدف پر رکھتا ہے، تو نشانہ محض ایک جسم نہیں ہوتا۔ وہ فائر کرتا ہے، لیکن اس فائر کی گونج صرف پہاڑوں میں نہیں، قابض کے بیانیے میں دراڑ ڈالتی ہے۔ وہ ایک گولی نہیں چلاتا، بلکہ ایک سوال فضا میں اچھالتا ہے:وہ بندوق کے ذریعے اُس جھوٹے بیانیے کو پارہ پارہ کرتا ہے، جو بلوچ کو غیر، سرمچار کو دہشتگرد، اور مزاحمت کو جرم بناتا ہے۔یہی بلوچ تحریک کا مزاج ہےشعور سے گندھی ہوئی بندوق، نظریے سے تراشی گئی مزاحمت، اور آزادی کی اس مشعل سے روشن، جو صدیوں سے سلگ رہی ہے۔ یہاں ہر گولی ایک جملہ ہے، ہر دھماکہ ایک باب، اور ہر شہید ہونے والا نوجوان ایک عنوان ہے۔
انسان محض حیاتیاتی وجود نہیں، بلکہ شعور، اخلاق، اور ارادے کا مرکب ہے۔ جب کوئی قوم غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو وہ صرف اپنے جسموں کو آزاد نہیں کر رہی ہوتی، وہ اپنے وجود کے اثبات کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔انسان صرف گوشت، ہڈی اور خون کا نام نہیں۔ وہ محض حیاتیاتی سانسیں لیتا ہوا ایک جسم نہیںوہ شعور ہے، وہ سوال ہے، وہ اخلاقی فیصلوں کی شدت ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قوم غلامی کے خلاف اٹھتی ہے، تو وہ دراصل اپنے "ہونے” کے حق کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو یہ باور کروا رہی ہوتی ہے کہ وہ کوئی شے نہیں، ایک زندہ اور باشعور وجود ہے۔
ایک سرمچار کی ڈائری کچھ اس طرح قلم بند ہوتی ہے کہ
میں جب بندوق کی نالی صاف کرتا ہوں، اس پر سورج کی کرن پڑتی ہے، تو میں خود سے پوچھتا ہوں: "کیا میری بندوق زندگی چھیننے کے لیے ہے؟”اور اندر سے آواز آتی ہے: "نہیں، یہ زندگی کے اثبات کے لیے ہے۔”میری بندوق سے نکلنے والی گولی، دراصل میرے "ہونے” کا اعلان ہے۔ اور میرا "ہونا” میرے پہاڑوں سے مشروط ہے، میرے سمندر، میری زبان، میری ثقافت، میرے بزرگوں کی قبروں، اور ان گیتوں سے وابستہ ہے جو میری ماں نے لوریوں میں سنائے تھے۔
یہ گولی کسی پر گرنے کے لیے نہیں نکلتی، یہ کسی سوال کا جواب دینے کے لیے نکلتی ہے۔وہ ontological سوال، جو صدیوں سے میری قوم کے گلے میں اٹکا ہوا ہے:
"کیا غلام قوم انسان ہے؟”اور میری بندوق اس سوال کا جواب بارود میں لپیٹ کر دیتی ہے:”نہیں۔ انسان وہی ہے جو آزادی کے لیے لڑے۔”
آزادی کی تحریکیں صرف گولیوں کی آوازوں، یا پہاڑوں میں گونجتے دھماکوں کا نام نہیں ہوتیں۔ یہ محض بارود کی بو یا جنگی نقشوں پر تیر کھینچنے کا کھیل نہیں۔ درحقیقت، آزادی کی تحریکیں ایک غیر مرئی آگ ہوتی ہیں، جو کسی قوم کے اجتماعی شعور میں سلگتی ہےایسی آگ جو نہ صرف سینے کو گرم رکھتی ہے، بلکہ آنکھوں کو بیدار، زبان کو سچّا، اور قدموں کو ثابت کرتی ہے۔یہ تحریکیں ایک کیفیت کا نام ہیں ایک مسلسل، دھڑکتے ہوئے خواب کا، جو غلامی کی صدیوں میں بھی مَرنے نہیں پاتا۔ یہ وہ خواب ہے، جو ماؤں کی لوریوں سے لے کر سرمچار کی بندوق تک، ہر جگہ رواں دواں ہے۔ یہاں بندوق محض ایک آلہ ہے، ایک ذریعہ، ایک صدائے احتجاج کا اوزار۔ لیکن اس میں جان، اس میں سمت، اس میں روح اُس وقت آتی ہے، جب اسے چلانے والے ہاتھ نظریے سے بھرے ہوں، اور دل ایک عظیم مقصد کے لیے دھڑک رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہر گولی جو آزادی کی تحریک میں چلتی ہے، وہ محض جسم نہیں گراتی، وہ نظریات کو جھنجھوڑتی ہے، بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے، اور طاقت کے ایوانوں میں لرزہ ڈالتی ہے۔وہ گولی، جو ایک باشعور سپاہی کی بندوق سے نکلتی ہے، وہ صرف فائر نہیں وہ ایک جملہ ہے، ایک منشور، ایک دستاویز ہوتی ہے۔ اور وہ سپاہی، جو اس گولی کو سمت دیتا ہے، محض ایک لڑاکا نہیں وہ ایک متحرک نظریہ ہے، جو اپنے جسم سے زیادہ اپنی سوچ سے لڑتا ہے۔مقبوضہ اقوام کی رگوں میں صرف خون نہیں، بلکہ مسلسل ایک حرارت دوڑتی ہےاور جب وہ حرارت بندوق کی نالی میں پہنچتی ہے، تو وقت تھم جاتا ہے، اور تاریخ ایک نیا باب رقم کرتی ہے۔
بلوچ مزاحمت کی تاریخ محض چند برسوں یا صحرائی جھڑپوں کا قصہ نہیں، یہ صدیوں پر محیط ایک ایسی رزمیہ داستان ہے جس میں ہر سرمچار کی آنکھ میں زمانوں کا دکھ سلگتا ہے، اور ہر بندوق کی نالی سے نکلنے والی گولی میں نسلوں کا نوحہ لپٹا ہوتا ہے۔ جب کوئی بلوچ سپاہی بندوق اٹھاتا ہے، تو وہ صرف ایک ہتھیار نہیں تھامتاوہ درحقیقت اپنے اجداد کی بےنام قبروں سے، اپنی ماں کے سہمے ہوئے چہرے سے، اور اپنے مٹی میں رچے ہوئے لہو سے ایک عہد نامہ اٹھاتا ہے۔اس کے ہاتھ میں تھمی بندوق دھات سے نہیں، درد سے بنی ہوتی ہے۔ اس کی انگلی جب لبلبی پر آتی ہے، تو گویا تاریخ کی رگوں میں جمے زخم پھٹنے کو ہوتے ہیں۔ اس کے قدموں کی چاپ صحرا کی خاموش ریت میں ایک نظم بناتی ہےایسی نظم جو غلامی کے ہر بت کو پاش پاش کر دینے کا اعلان ہوتی ہے۔ وہ خاموشی جو اُس کی پلکوں پر ٹھہری ہوتی ہے، وہ چیخ ہے جو صدیوں سے گھٹتی چلی آ رہی تھی،
یہ جنگ اپنی زمین کے ایک ایک انچ کے لے ہیں۔ یہ ایک وجود کی بازیافت ہےایک شناخت، جو کالونائزر نے چھین لی ہے ، ایک ثقافت، جسے مٹانے کی کوشش کی گئی، اور ایک قوم، جسے تاریخ سے کاٹ کر خاموشی میں دفن کرنا چاہا گیا۔ لیکن وہ بلوچ سپاہی، جو پہاڑوں کے سائے میں بیٹھ کر بندوق کو صاف کرتا ہے، وہ ایک مردِ وطن ہے جو ہر دن، ہر گولی، ہر زخم کے ساتھ خود کو دوبارہ لکھتا ہے۔ اور جب وہ لڑتا ہے، تو اپنی ذات کے لیے نہیں، بلکہ ان سب کے لیے لڑتا ہے جو اپنی شناخت، اپنی مٹی، اور اپنے وجود کو بھول چکے ہیں۔ جو پہاڑوں، وادیوں، اور ریگزاروں میں لڑتاہے۔ وہ اپنی تاریخ کی بازیافت کے لے لڑتاہے وہ تاریخ جو زنجیروں کی جھنکار میں لکھّی گئی، جسے خیموں میں نہیں، زندانوں اور مقتل گاہوں میں رقم کیا گیا۔یہ گولی ایک زخم سے نکلتی ہے، جو ماں کے اجاڑ آنچل، بچے کی خالی آنکھوں، اور اس مٹی کی چیخ سے بنا ہے جس پر ریاستی بوٹ برسائے گئے۔ یہ زخم فقط جسمانی نہیں یہ یادداشت کا زخم ہے، تہذیب کا زخم، وہ نشان جو روح پر کھنچتا ہے اور صدیوں تک رستا رہتا ہے۔لیکن سب سے بڑھ کر، اس گولی کے پیچھے ایک نظریہ کھڑا ہوتا ہےایسا نظریہ جو خون اورشعور سے لکھا گیا ہو؛ جو یہ نہیں کہتا کہ ہم صرف لڑنا چاہتے ہیں، بلکہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم جینا چاہتے ہیں، مگر آزاد ہو کر۔ وہ نظریہ جو ہر بلوچ دل میں دھڑکتا ہے، جو ہر دراڑ زدہ دیوار پر کندہ ہے،
جب بلوچ سرمچار محاذِ جنگ کی سمت قدم بڑھاتا ہے، تو اس کے قدموں تلے زمین خود کو مقدّس محسوس کرنے لگتی ہے۔ وہ بندوق کو کندھے سے لٹکائے ضرور ہوتا ہے، مگر اس کے اصل ہتھیار کی دھار کہیں اور چھپی ہوتی ہےاس کے شعور میں، اس کی آنکھوں کی آنچ میں، اور اس کے سینے میں دھڑکتے اس خواب میں، جس نے اس کے خیمے کو محاذ میں بدل دیا ہے۔اس کی راہ میں ریت اڑتی ہے، آسمان گردآلود ہو جاتا ہے، مگر وہ رکتا نہیںکیونکہ اس کے دل میں ایک مشعل دہک رہی ہے۔ یہ کوئی عام روشنی نہیں؛ یہ فکر کی آگ ہے، جو نہ صرف اسے راستہ دکھاتی ہے بلکہ اسے اندھیروں سے لڑنے کی جرأت بھی دیتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میدانِ جنگ میں صرف گولی نہیں، نظریہ بھی چلتا ہے۔
اس کا حوصلہ کسی دھات یا بارود سے جڑا نہیں، وہ تو چٹان کی مانند اس لیے ہے کہ اسے اپنی جنگ کا مطلب معلوم ہے۔ یہ کوئی ذاتی انتقام یا قبیلائی فخر کی لڑائی نہیں یہ ایک پوری قوم کے آدرش کی حفاظت کا معاملہ ہے، ایک ایسی تہذیب کے دفاع کا سوال ہے جو صدیوں سے شعور، زبان اور مٹی کے رنگ میں گندھی ہوئی ہے۔وہ جب پہاڑوں کی طرف دیکھتا ہے، تو اسے صرف سنگلاخ چٹانیں نہیں، اپنی تاریخ کے صفحات دکھائی دیتے ہیں۔ جب وہ وادیوں میں اترتا ہے، تو خاموشی بھی اس سے سرگوشی کرتی ہے کہ یہ راستے تمہارے خون سے محفوظ ہوں گے۔
وہ جانتا ہے کہ اگر وہ گر بھی گیا، تو زمین اس کی قربانی کو جذب نہیں کرے گی، بلکہ محفوظ رکھے گی کیونکہ اس کی جنگ محض ایک بغاوت نہیں، ایک بیانیہ ہے؛ اور اس بیانیے میں وہی سچ بولتا ہے جو وقت کو بدلنے کی سکت رکھتا ہے۔
اس مزاحمت کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ یہ صرف بارود کی آواز نہیں، بلکہ شعور کی صدا ہےایسی صدا جو نہ صرف سنائی دیتی ہے بلکہ تاریخ کی دیواروں پر گونجتی ہے۔ یہاں گولی محض انتقام کی آگ سے نہیں نکلتی، بلکہ ایک مکمل بیانیے کی کوکھ سے جنم لیتی ہےایک ایسی سوچ سے، جو نسلوں کی پیاس، ماؤں کی فریاد، اور زمین کی تھرتھراہٹ سے عبارت ہے۔یہ مزاحمت بندوق کے سائے میں پلنے والی کوئی اندھی جدوجہد نہیں، یہ ایک قومی انقلاب ہے؛ وہ انقلاب جو دلیل سے لیس ہے، جو ہر فائر کے ساتھ سوال اٹھاتا ہے، اور ہر شہادت کے ساتھ ایک نئی سطر لکھتا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں بلوچ سپاہی کے ہاتھ میں گولی ہے، لیکن دماغ میں نظریہ
قابض کے لیے یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہےایک ایسی قوم جو صرف لڑنا نہیں جانتی، سوچنا بھی جانتی ہے؛ جو فقط چیخنا نہیں، دلیل دینا بھی جانتی ہے؛ جو صرف مرنا نہیں، مر کر زندہ رہنا سکھاتی ہے۔ یہ مزاحمت ہر شہید کے لہو سے ایک نقش چھوڑتی ہے، ایک انمٹ تحریر، جو وقت کی جلد پر کندہ ہو جاتی ہےایسی تحریر جسے نہ توپ مٹا سکتی ہے، نہ تاریخ جھٹلا سکتی ہے۔
بلوچ مزاحمت محض ایک جنگ کا نام نہیں، یہ ایک جاری و ساری مکالمہ ہے ایسا مکالمہ جو گولیوں کی گونج میں سنائی دیتا ہے؛ جہاں ہر خاموشی کے پیچھے صدیاں بولتی ہیں، اور ہر لفظ کے نیچے لہو کی ایک لکیر کھنچی ہوتی ہے۔ یہ ظلم کے ایوانوں کے سامنے عدل کا پہلا حرف ہے، جبر کے طوفان کے مقابل ایک ننھی مگر مستقل شمع، اور تاریخ کی فراموشی کے مقابل وہ چیخ ہے جو پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آتی ہے۔اس مکالمے کا ہتھیار یقیناً بندوق ہےمگر وہ بندوق جس میں بارود سے زیادہ شعور بھرا گیا ہو۔ جو ہر فائر کے ساتھ صرف جسموں کو نہیں، نظریاتی غلامی کو بھی چیر دیتی ہے۔ یہ بندوق اس مٹی سے بنی ہے جس پر صدیوں سے قدم رکھے جا رہے ہیں، اور اس کی نالی میں وہ آہیں ہیں جو ماؤں نے اپنے گمشدہ بیٹوں کے انتظار میں بھریں۔
مگر اس جنگ کا اصل مرکز وہ ذہن ہے، جو تاریخ کو سمجھتا ہے، جو صرف نفرت سے نہیں بلکہ ایک مقصد، ایک تصور، ایک نظریے سے جُڑا ہے۔ یہی وہ شعور ہے جو اس مزاحمت کو محض ردعمل کے دائرے سے نکال کر فطری مزاحمت میں بدل دیتا ہےاور جب تک یہ شعور زندہ ہے،خواہ وہ پہاڑ کی اوٹ میں ہو یا کسی اسیر کی آنکھوں میں بندوق کبھی خاموش نہیں ہوگی۔ وہ ہر اس لمحے گرجے گی جب کوئی تاریخ مٹانے کی کوشش کرے گا، اور جب کوئی عدل کے کتبے پر جبر کا رنگ پھیرنے کی جسارت کرے گا۔یہ مزاحمت دراصل وہ قوت ہے جو دبائی نہیں جا سکتی، وہ سوال ہے جس کا جواب کالونائزر کو دینا ہی پڑے گا۔
ایک سرمچار کی ڈائری سے
رات کی خاموشی میں جب پہاڑوں پر ہلکی سی ہوا چلتی ہے اور بارود کی بو دھیرے دھیرے سانسوں میں تحلیل ہوتی ہے، تب میں اپنی رائفل کی نالی کو چھوتا ہوں جیسے کوئی صوفی مٹی کو چھو کر خالق کو پکارے۔
میری انگلی جب ٹریگر پر رکتی ہے، تو میرا بدن کسی دھات یا گولی سے طاقت نہیں پاتا میری طاقت میرے یقین میں ہے۔
یہ یقین کہ میری جنگ ذاتی نہیں، قومی ہے۔
میری رگوں میں جو خون دوڑتا ہے، وہ کسی قبیلے، کسی خاندان، کسی فرد کی جنگ نہیں لڑ رہا—وہ اس دھرتی کے اُن بیٹوں کا قرض چکا رہا ہے، جن کی قبریں بھی گمنام ہیں، مگر قربانی امر۔
مجھے کہا جاتا ہے کہ میں شدت پسند ہوں، باغی ہوں، قاتل ہوں۔
میں مسکراتا ہوں۔
کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری بندوق نفرت سے نہیں، نظریے سے لبریز ہے۔
میری انگلی جو ٹریگر پر رکتی ہے، وہ کسی ذاتی انتقام کا بوجھ نہیں اٹھاتی، بلکہ ایک پوری قوم کے خوابوں، دکھوں اور غلامی کے طویل اندھیروں کا حساب لیتی ہے۔
میری قربانی وقتی نہیں ابدی ہے۔
میری مزاحمت انتشار نہیں یہ ایک اعلیٰ قومی نصب العین کی تجسیم ہے۔
جب میں پہاڑوں پر چھپ کر دشمن کی گزرگاہوں پر نظر رکھتا ہوں، تو میں محض ایک لڑاکا نہیں ہوتامیں تاریخ کی آنکھ بن جاتا ہوں، جو دیکھ رہی ہے کہ حق کیسے اپنے خوں سے زمین کو سیراب کرتا ہے تاکہ آزادی کا پہلا پھول کھل سکے۔
