
کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری ہے، ریاستی اداروں کی جانب سے ابھی تک نوجوانوں کو بازیاب کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جس کے باعث اہل خانہ شدید ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔
کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ منگل کو اپنے 36 ویں دن میں داخل ہو گیا۔ بارش کے باوجود خواتین، بچے اور بزرگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔
کیمپ میں موجود لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “میرا بیٹا ایک محنت کش اور بے ضرر نوجوان ہے، جو اپنی فیملی کا سہارا بنا ہوا تھا، مگر آج وہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ اگر اُس پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور کسی کو ماورائے آئین سزا دینے کا حق نہیں۔”
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ ان نوجوانوں میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے رہائشی شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ یہ سب عام گھریلو پس منظر رکھتے ہیں، مگر ان کی گمشدگی نے اہل خانہ کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
لواحقین کے مطابق جبری گمشدگی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے معاشرتی اور معاشی اثرات بھی تباہ کن ہیں۔ گھروں کے کفیل نوجوانوں کی غیر موجودگی میں خاندانوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے ترسنا پڑ رہا ہے اور کئی مائیں اپنے بیٹوں کی جدائی کے صدمے میں بیمار ہو چکی ہیں۔
احتجاجی کیمپ کے شرکاء کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی تک کیمپ نہیں چھوڑیں گے اور عالمی برادری سے مدد اور نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
