
نیپال اس وقت شدید سیاسی و سماجی بحران کا شکار ہے۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کی شکل اختیار کر لی، جن میں کم از کم ۱۹ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
احتجاجی تحریک کی قیادت نوجوان نسل، جسے “جن زی” کہا جا رہا ہے، کر رہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کرے اور آزادی اظہار پر عائد قدغنیں ختم کرے۔
صورتحال کشیدہ ہونے پر حکومت نے پہلے سخت کریک ڈاؤن کیا، کرفیو نافذ کیا اور سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس، واٹر کینن اور براہِ راست فائرنگ تک کا استعمال کیا۔ تاہم بڑھتے دباؤ کے بعد حکومت نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ہٹا دی ہے۔
وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے آج قوم سے خطاب میں اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام “ملک کو مزید انتشار سے بچانے” کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے مظاہروں میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے معاوضے اور زخمیوں کے مفت علاج کا اعلان بھی کیا۔
ادھر کٹھمنڈو اور اطراف کے علاقوں میں کرفیو جاری ہے جبکہ ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے جو ۱۵ دن میں رپورٹ پیش کرے گا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، اولی کے استعفے کے بعد نیپال میں نئی عبوری حکومت یا عام انتخابات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، مگر ملک کو درپیش بداعتمادی اور کرپشن کے مسائل فوری طور پر حل ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
