لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کراچی و اسلام آباد میں احتجاج جاری

کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ اپنے 32ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ اس موقع پر لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا 17 جولائی 2025 کی شام لیاری سے اُس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ رکشے پر سواری کا انتظار کر رہا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق سادہ لباس میں ملبوس اہلکار زاہد کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر اس کے رکشے سمیت لے گئے، جس کے بعد سے اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

عبدالحمید بلوچ نے بتایا کہ زاہد نے حال ہی میں کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن مکمل کیا تھا اور روزگار کے محدود مواقع کے باعث گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رکشہ چلاتا تھا۔ انہوں نے رنجیدہ لہجے میں کہا:
“اگر میرا بیٹا کسی جرم میں ملوث ہے تو اُسے عدالت میں پیش کیا جائے، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث ان کی صحت بھی خراب ہے جبکہ بیٹے کی جبری گمشدگی نے دکھ اور بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان کے مطابق، زاہد کی ماں بیٹے کی واپسی کی آس میں روز دروازے کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے کئی بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ ہیں، جن میں ماری پور اور ہاکس بے کے شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ اسی طرح ملیر سے میر بالاچ بلوچ بھی کئی ماہ سے لاپتہ ہیں۔ لواحقین کے مطابق ان گمشدگیوں نے متاثرہ خاندانوں کو شدید ذہنی و مالی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

عبدالحمید بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ زاہد سمیت تمام لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔
“یہ صرف میرا دکھ نہیں بلکہ ہر اُس خاندان کا درد ہے جس کا بیٹا جبری طور پر لاپتہ ہے۔”

دوسری جانب اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لاپتہ رہنماؤں کی بازیابی کے لیے احتجاجی دھرنا 52ویں روز بھی جاری ہے، جہاں خواتین، بزرگ اور بچے سخت گرمی، بارشوں اور مسلسل دباؤ کے باوجود اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے کہا کہ حکام دھرنے کو دبانے اور مظاہرین کو ہراساں کرنے کے بجائے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لائیں اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔

اسلام آباد میں جاری دھرنے پر لواحقین نے پریس کانفریس کرتے ہوئے کہا کہ جیسے کہ آپ سب جانتے ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ لواحقین کے اس احتجاجی کیمپ کو آج 52 دن گزر چکے ہیں۔ سخت موسمی حالات کے باوجود نہ کسی نے ان کے جمہوری مطالبات کو سننے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا۔ یہ رویہ اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ بلوچستان میں آج تک جمہوری طرزِ سیاست کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ یہاں سیاسی رہنماؤں کو سننے کے بجائے ہمیشہ تشدد اور جبر کے ذریعے خاموش کرایا گیا ہے۔
ہم یہ بتانا لازمی سمجھتے ہے کہ ہم لواحقین ضرور ہیں، مگر ہمارے پاس عوام کا موقف ہے۔ ہم یہاں ان خاندانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں جو بلوچستان میں ریاستی جبر کا شکار ہیں، اور وہی دراصل عوام کی اکثریت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد نظر بلوچ کی جبری گمشدگی کو اجاگر کرنا ہے۔ نظر مری بایوکیمسٹری میں ایم فل اسکالر ہیں اور کوہلو کے رہائشی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے وہ کوئٹہ میں مقیم رہے ہے اور ایک متحرک طلبہ رہنما کے طور پر اپنی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد گزشتہ ڈیڑھ سال سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سرگرم کارکن کے طور پر پرامن سیاست کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نظر مری نے ہمیشہ پرامن سیاسی جدوجہد کو ترجیح دی اور بلوچستان کے پسماندہ عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ مگر افسوس کہ وہ خود جبری گمشدگی کے شکار بنا دیے گئے۔ انہیں بارہا ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے ہراساں کیا گیا کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کریں۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بہترین آرگنائزر کے طور پر اس اہم مسئلے پر توجہ دلاتے رہے۔

27 اگست کو شام ساڑھے سات بجے، کوئٹہ کے گولی مار چوک پر بلال کیفے سے، سی ٹی ڈی اور پولیس اہلکاروں نے درجنوں لوگوں کے سامنے نظر مری کو جبری طور پر لاپتہ کیا۔ آج ان کی گمشدگی کو 8 دن گزر چکے ہیں، مگر تاحال ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ اہلِ خانہ نے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی مگر ہمیشہ کی طرح پولیس نے انکار کر دیا۔

کانفریس میں مزید کہا گیا ہے کہ نظر مری کی جبری گمشدگی نہ صرف ان کی آزادی سلب کرنے کا سنگین جرم ہے بلکہ ان کے خاندان کو اذیت ناک انتظار میں مبتلا کرکے اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ان سیاسی کارکنوں کو بھی ذہنی اذیت دی جا رہی ہے جو پرامن سیاسی راستہ اختیار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکامِ بالا کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو مزید جبری طور پر غائب کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ یہاں ہر فرد ایک کہانی ہے اور ہر کہانی سے مزاحمت کی روانی ہے۔ ہر جبری گمشدہ فرد کی داستان نے سینکڑوں لوگوں کو متحرک کیا ہے، اور مزیدہ جبری گمشدگیاں کرنے سے یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔

آخر میں کہا گیا کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ اس عمل کو مجرمانہ قرار دے کر فوری طور پر بند کیا جائے اور نظر مری سمیت تمام جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مند حملے میں قابض پاکستانی فوج کے 2 اہلکار ہلاک کردئیے گئے۔ بی ایل اے

جمعہ ستمبر 5 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے مند میں قابض پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو حملے میں نشانہ بنا کر جانی نقصانات سے دوچار کیا۔ سرمچاروں نے کوئٹہ، قلات و مستونگ میں قابض فوج اور سہولت کاری میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ