
تحریر: رامین بلوچ
شال میں داعش کی جانب سے حالیہ خودکش حملے نے نہ صرف قابض ریاست کے وحشیانہ اور نسل کشی پر مبنی چہرے کو بے نقاب کردیا ہے بلکہ بلوچ آزادی پسندوں کے اُن پیشگی خدشات اور تحفظات کو بھی درست ثابت کردیا ہے کہ بلوچستان میں جاری قومی آزادی کی تحریک اور سیاسی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں نے ایک نئے دہشت گردانہ کھیل کا آغاز کر دیا ہے۔گزشتہ دنوں شال (کوئٹہ) میں سردار عطا اللہ مینگل کی برسی کے موقع پر منعقدہ جلسے کے اختتام پر ہونے والے خودکش حملے میں پندرہ سے زائد بلوچ فرزندان شہید اور تیس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ داعش خراسان (ISIS-K) کے پاکستان چیپٹر نے چند گھنٹوں کے اندر اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ حملے سے چند ماہ قبل داعش خراسان نے ایک باقاعدہ کتابچہ (پمفلٹ) جاری کیا تھا، جس میں بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف کھلے الفاظ میں اعلانِ جنگ کیا گیا تھا، بالخصوص بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کو نشانہ بنانے کی کھلی دھمکی دی گئی تھی۔ اسی دوران ایک آڈیو بیان بھی سامنے آیا، جس میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے خلاف براہِ راست کارروائیوں کا اعلان کیا گیا۔
ان تمام واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں داعش کی سرگرمیاں محض ایک "بین الاقوامی” شدت پسند گروہ کے اقدامات نہیں، بلکہ بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے سلسلے میں ایک منظم اور گہری سازش کا حصہ ہیں، جس کے پیچھے ریاستی خفیہ اداروں کا کردار واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان کی تاریخ جدوجہد، قربانیوں اور غلامی کے خلاف مزاحمت کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ اس سرزمین پر صدیوں سے آزادی اور خودمختاری کی تحریکیں جاری رہی ہیں، لیکن پہلے انگریز نوآبادیاتی قوتوں اور بعد ازاں پاکستانی ریاست نے ہمیشہ اس تحریک کو خون میں ڈبو دینے کی کوشش کی۔بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی جبر کا سلسلہ کوئی نیا عمل نہیں بلکہ ایک منظم اور سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے، جو مختلف ادوار میں بدلتے ہوئے ہتھکنڈوں کے ساتھ جاری رہی ہے۔ ماضی میں مختلف ادوار میں ڈیتھ اسکواڈز، مذہبی انتہا پسند گروہوں اور پراکسی ملیشیاؤں کو بلوچ مزاحمت کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔2000 کی دہائی میں جب بلوچ تحریک نے زور پکڑا تو اس کے جواب میں مسلح دفاع، حق ء نا توار اور دیگر شدت پسند گروہوں کو پروان چڑھایا گیا، جبکہ لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ جیسے فرقہ وارانہ دہشت گرد گروہوں کو بلوچ علاقوں میں سرگرم کیا گیا۔ اب یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ داعش خراسان انہی پالیسیوں کا ایک جدید اور زیادہ "بین الاقوامی” ورژن ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جہاں پہلے یہ گروہ مقامی اور فرقہ وارانہ شناخت کے حامل تھے، وہاں اب داعش کو ایک عالمی شدت پسند برانڈ کے طور پر پیش کرکے بلوچ تحریک کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
جب ریاست فوجی آپریشنز کے ذریعے بلوچ آزادی کی تحریک کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہی، تو اس نے ایک نیا حربہ متعارف کرایا۔ اس حکمتِ عملی کے تحت ڈیتھ اسکواڈز اور نجی ملیشیاؤں کو منظم کیا گیا۔ یہ وہ مسلح گروہ تھے جنہیں ریاستی خفیہ ایجنسیوں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ ان کا بنیادی کام بلوچ آزادی پسند کارکنوں اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنانا، عوام میں خوف و دہشت پھیلانا، اور آزادی کی تحریک کو کمزور کرنا تھا۔
یہ ڈیتھ اسکواڈز عام طور پر جرائم پیشہ عناصر، لالچی سرداروں اور بعض مذہبی شدت پسندوں پر مشتمل ہوتے تھے، جو محض ریاستی مفادات کے لیے استعمال کیے جاتے۔ ان کی سب سے خطرناک خصوصیت یہ تھی کہ انہیں بظاہر "غیر ریاستی” قوت کے طور پر پیش کیا جاتا، تاکہ ریاست اپنے جبر و تشدد سے لاتعلقی کا تاثر دے سکے اور عالمی سطح پر جواب دہی سے بچ سکے۔
بلوچستان ایک سیکولر اور قدیم تہذیبی ورثہ رکھنے والا خطہ ہے، جہاں مذہبی بنیاد پرستی کی جڑیں ہمیشہ کمزور رہی ہیں۔ تاہم، ریاست نے دانستہ طور پر مذہبی انتہا پسند گروہوں کو پروان چڑھایا، تاکہ بلوچ قوم دوست تحریک کو توڑا جا سکے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت ایسے گروہوں کو بلوچستان میں جگہ دی گئی، جو اپنی کارروائیوں کے ذریعے قومی آزادی کے بیانیے کو کمزور کرتے، عوام میں فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ہوا دیتے اور مزاحمتی تحریک کو داخلی طور پر تقسیم کرتے۔داعش (ISIS-K) جیسے عالمی شدت پسند گروہوں کا اچانک بلوچستان میں ظاہر ہونا بھی اسی ریاستی پالیسی کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ حالیہ حملوں، خصوصاً شال (کوئٹہ) میں سردار عطا اللہ مینگل کی برسی کے جلسے پر ہونے والے خودکش حملے، نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے کہ ایسے گروہوں کو بلوچ تحریک کے خلاف ریاستی پراکسی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ عناصر عملی طور پر ریاستی پراکسی ملیشیا کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا مقصد آزادی پسند تنظیموں کو کمزور کرنا اور ریاستی بیانیے کو تقویت دینا ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی بلوچ آزادی کی تحریک کو "کافر” اور "ملحد” قرار دیا گیا، بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کو "مرتد” کہا گیا، اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) و دیگر مزاحمتی گروہوں کے خلاف "مسلح جہاد” کا اعلان کیا گیا۔یہ تمام شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ داعش کا اصل ہدف ریاستی بیانیے کے عین مطابق ہے۔ داعش خراسان اس مقصد کے لیے ایک بہترین پراکسی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس کے حملے بظاہر مذہبی شدت پسندی کے رنگ میں پیش کیے جاتے ہیں، مگر درحقیقت ان کا نشانہ بلوچ سیاسی و مزاحمتی قیادت اور عوامی مزاحمتی قوتیں ہوتی ہیں۔ان حملوں کے بعد ریاست کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ عالمی برادری کو یہ باور کرائے کہ بلوچستان میں "انسدادِ دہشت گردی” کی کارروائیاں ناگزیر ہیں۔ اس طرح ریاست نہ صرف اپنی بربریت کو چھپا لیتی ہے بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کو بھی مؤثر طریقے سے دبانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
ریاستی میڈیا اور بعض بین الاقوامی چینلز اس واقعے کو محض "دہشت گردی” کے تناظر میں رپورٹ کر رہے ہیں۔ بلوچ قوم دوست قیادت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ داعش کا وجود ایک ریاستی تخلیق ہے، جسے بلوچ تحریک کو بدنام اور کاؤنٹر کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔پاکستانی ریاست اکثر بلوچستان میں ہونے والی مزاحمتی کارروائیوں کو "بیرونی سازش” کا نتیجہ قرار دیتی ہے، لیکن جب داعش جیسی عالمی شدت پسند تنظیم براہِ راست بلوچ تحریک کے خلاف متحرک ہو تو اس کی پشت پناہی اور مالی وسائل کے ماخذ پر سوال اٹھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ریاست اس صورتحال سے دوہرا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ بلوچ قیادت اور تحریک کو کچلنے کے لیے ردِ انقلاب کی کیفیت پیدا کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر بلوچ جدوجہد کے جواز کو نقصان پہنچا کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں بین الاقوامی برادری کے لیے یہ حقیقت سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ داعش خراسان کی سرگرمیاں محض مذہبی شدت پسندی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک منظم ریاستی پراکسی وار کا حصہ ہیں، جو بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے خلاف ایک ردِ انقلاب کے طور پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔شال میں جلسے پر ہونے والا حالیہ خودکش حملہ محض ایک دہشت گردی کا واقعہ نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے اور منظم منصوبے کا ابتدائی قدم ہے۔ اگر عالمی سطح پر اس سازش کو بے نقاب نہ کیا گیا تو خطے میں امن کے تمام خواب مزید خون میں ڈوب جائیں گے۔
بلوچ قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور عالمی سطح پر یہ واضح بیانیہ پیش کرے کہ بلوچ تحریکِ آزادی کسی بھی مذہبی شدت پسندی کا حصہ نہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی، تاریخی اور قومی جدوجہد ہے، جسے مصنوعی دہشت گرد گروہوں کے ذریعے سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ گروپس کی موجودگی اور اب داعش خراسان کی انٹری، پاکستانی خفیہ اداروں کی بلوچ نسل کشی پر مبنی پالیسیوں کی ایک نئی، مکروہ اور مجرمانہ شکل کو بے نقاب کرتی ہے۔بلوچستان میں آزادی کی تحریک کوئی وقتی یا اچانک ابھرنے والا ردِ عمل نہیں، بلکہ یہ صدیوں پر محیط ایک تاریخی حقیقت ہے۔ 1948ء میں جب پاکستان نے فوجی طاقت کے ذریعے بلوچستان کو اپنی غیر فطری ریاست میں زبردستی شامل کیا، تو اس دن سے بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد ایک مسلسل تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔اس تحریک کو کچلنے کے لیے ریاست نے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کیے، ہزاروں سیاسی کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا، ہزاروں کو لاپتہ کیا، اور ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے خوف و دہشت پھیلائی۔ لیکن ان سب مظالم کے باوجود تحریک کمزور ہونے کے بجائے مزید منظم اور طاقتور ہوئی۔
ریاستی اداروں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ محض فوجی طاقت سے بلوچ تحریک کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا انہوں نے "ڈوائیڈ اینڈ رول” کی پالیسی کو شدت سے اپنایا۔ اس حکمتِ عملی کے تحت مذہبی شدت پسند گروہوں کو بلوچستان میں داخل کیا گیا، تاکہ بلوچ قومی تحریک کو "لادین” اور "ملحد” قرار دے کر اس کے خلاف مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔داعش خراسان (ISIS-K) کا نام عالمی سطح پر افغانستان اور وسطی ایشیائی خطے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن اس کی بلوچستان میں موجودگی اور سرگرمیاں ایک الگ اور پیچیدہ کہانی بیان کرتی ہیں۔ بلوچستان میں داعش کی حالیہ کارروائیاں، خصوصاً شال (کوئٹہ) میں سردار عطا اللہ مینگل کی برسی کے جلسے پر ہونے والا خودکش حملہ، اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اس گروہ کو پاکستانی خفیہ اداروں کی سرپرستی اور معاونت حاصل ہے۔
داعش خراسان کی بلوچستان میں سرگرمیوں کے چند نمایاں پہلو اس حقیقت کو مزید واضح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اس کے حملے ہمیشہ بلوچ قوم دوست جماعتوں، عوامی اجتماعات اور آزادی پسند رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہیں، جبکہ وہ کبھی بھی ریاستی اداروں، سیکیورٹی فورسز یا عسکری تنصیبات کو نشانہ نہیں بناتے۔ یہ انتخاب اس بات کا براہِ راست ثبوت ہے کہ داعش کا اصل مقصد بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچانا ہے، نہ کہ مذہبی بنیادوں پر کوئی عالمی خلافت قائم کرنا۔داعش کے حملوں کے بعد ریاستی پروپیگنڈا مزید مضبوط ہوتا ہے۔ ریاست عالمی برادری کے سامنے یہ تاثر قائم کرتی ہے کہ بلوچستان میں جاری مزاحمت دراصل دہشت گردی کا حصہ ہے۔ حالانکہ بلوچستان جیسے سخت نگرانی والے خطے میں داعش جیسی تنظیم کا آزادانہ طور پر کام کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انہیں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں بلکہ مکمل لاجسٹک سپورٹ بھی دی جا رہی ہے، جو کسی ریاستی سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قومی آزادی کی تحریک مضبوط ہوتی ہے تو طاقتور قوتیں اس کے خلاف ردِ انقلاب پیدا کرتی ہیں۔ ویتنام میں امریکہ نے ویت کانگ کے خلاف ملیشیاؤں کو استعمال کیا، لاطینی امریکہ میں کانٹرا فورسز کو قومی انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے کھڑا کیا گیا، اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف "مجاہدین” تیار کیے گئے، جو بعد ازاں طالبان اور القاعدہ میں تبدیل ہوگئے۔بلوچستان میں داعش خراسان کا کردار اسی تاریخی تسلسل کا حصہ ہے۔ یہ ایک مصنوعی مذہبی بیانیہ تخلیق کر کے قومی تحریک کو "دہشت گردی” سے جوڑنے اور عوامی حمایت کو ختم کرنے کی ایک منظم اور خطرناک سازش ہے۔
عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کے ادارے اکثر بلوچستان کے مسئلے کو صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زاویے سے دیکھتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے۔ اگر عالمی برادری اس حقیقت کا ادراک نہ کرے کہ داعش خراسان محض ایک شدت پسند گروہ نہیں بلکہ ایک ریاستی پراکسی وار کا ہتھیار ہے، تو بلوچستان کی سرحدوں، جو ایران، افغانستان اور بحیرۂ عرب سے جڑی ہوئی ہیں، کی بدامنی پورے خطے کو متاثر کر سکتی ہے، اور اس کے اثرات وسطی ایشیا اور خلیج تک پھیل سکتے ہیں۔اگر عالمی برادری ایک آزاد بلوچ ریاست کو تسلیم کرے اور ریاستی پراکسیز کو بے نقاب کرے، تو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔
داعش خراسان کا وجود اور اس کی بلوچستان میں سرگرمیاں کسی بھی طرح "خود رو” نہیں، بلکہ یہ ریاستی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ یہ ایک ردِ انقلابی پروجیکٹ ہے جس کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنا، اس کے نظریاتی بیانیے کو مسخ کرنا، اور عالمی سطح پر اسے دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر بدنام کرنا ہے۔
بین الاقوامی برادری کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ محض دہشت گردی کے بیانیے کو نہ اپنائے، بلکہ اس حقیقت کو سمجھے کہ بلوچستان میں ایک آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے مذہبی شدت پسند گروہوں کو باقاعدہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو نہ صرف بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد مزید پیچیدہ ہو جائے گی بلکہ پورے خطے میں ایک نہ ختم ہونے والا بحران جنم لے گا۔
داعش خراسان کے نزدیک قوم دوستی اور قومی شناخت کا تصور "غیر اسلامی” ہے۔ اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو بلوچستان میں مسلح اور پُرامن دونوں محاذوں کی تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ شال واقعہ اسی وسیع تر ریاستی پالیسی اور منظم منصوبہ بندی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ماضی میں شفیق مینگل کی زیرِ سرپرستی قائم کی گئی "مسلح دفاع” نامی ایک ریاستی حمایت یافتہ تنظیم نے خضدار یونیورسٹی میں بلوچ کلچر ڈے کی تقریب پر مسلح حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد اسی نجی ملیشیا پر ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے سنگین الزامات لگے۔ توتک کے مقام پر دریافت ہونے والی اجتماعی قبریں بھی انہی عناصر کی بربریت کی گواہ ہیں۔
ان واقعات کے تسلسل میں بلوچستان بھر میں "ریاستی ڈیتھ اسکواڈز” کی تشکیل کی اطلاعات سامنے آئیں، جنہیں بلوچ آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے مربوط عسکری، مالی اور پروٹوکول کی سطح پر سہولیات فراہم کی گئیں۔ ان گروہوں کو نہ صرف جدید اسلحہ فراہم کیا گیا بلکہ ان کی قیادت براہِ راست ریاستی اثر و رسوخ، خاص طور پر پنجابی بیوروکریسی اور عسکری قیادت کے ماتحت رہی۔
یہاں ایک نہایت اہم سوال جنم لیتا ہے:
کیا داعش واقعی ایک بین الاقوامی برانڈ کے طور پر بلوچستان میں فعال ہے؟
یا یہ ایک "پروجیکٹڈ دہشت گرد تنظیم” ہے؟
بلوچ رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ "داعش پاکستان” دراصل ریاستی اداروں کا ایک پلاٹڈ گروہ ہے، جسے بلوچ آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ دعویٰ ایک عرصے سے سوشل میڈیا اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کے بیانیے کا حصہ ہے، مگر اس پر کھلے عام بات کرنا آج بھی ریاستی میڈیا میں نہایت مشکل ہے۔چند ماہ قبل "لکھ پاس لانگ مارچ” پر ایک ناکام خودکش حملے کی خبر سامنے آئی تھی۔ اگر اس واقعے کو حالیہ شال حملے کے ساتھ جوڑا جائے تو یہ واضح تسلسل سامنے آتا ہے۔ دونوں حملوں کا ہدف وہ سیاسی قوتیں تھیں جو بلوچ حقوق، آزادی یا کم از کم خودمختاری کی بات کرتی ہیں۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب بلوچستان میں نوجوان نسل بڑی تعداد میں مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ افسوس کہ ایسے واقعات ریاستی میڈیا میں محض چند لمحوں کی خبر بن کر رہ جاتے ہیں، جبکہ ان کے اثرات کئی نسلوں تک قائم رہتے ہیں۔شال (کوئٹہ) میں ہونے والا حالیہ خودکش دھماکہ اسی ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے، جو بلوچ سیاسی، فکری اور انسانی حقوق کی آوازوں کو کچلنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہ دھماکہ محض ایک دہشت گردانہ حملہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم نوآبادیاتی منصوبہ ہے۔ریاستی خفیہ ادارے برسوں سے بلوچستان میں "پراکسی وار” کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں، جس کے تحت مذہبی شدت پسند گروہوں، ڈیتھ اسکواڈز اور نام نہاد ملیشیاؤں کو پروان چڑھایا گیا، تاکہ بلوچ قومی مزاحمت کو اندرونی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ داعش خراسان جیسے گروہوں کی بلوچستان میں موجودگی محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ ریاستی پالیسی کا لازمی حصہ ہے۔
اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، لیکن اس گروہ کی جڑیں اور اس کی سرپرستی انہی قوتوں سے جڑی ہیں جو بلوچستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
قابض ریاست اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ نہ صرف آزادی پسند جماعتوں اور رہنماؤں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں، بلکہ ان جماعتوں کو بھی نشانہ بناتی ہے جو نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے بلوچ قوم کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ حقیقت شال دھماکے سے بخوبی عیاں ہوتی ہے کہ ریاست کسی بھی ایسی سیاسی سرگرمی کو پنپنے نہیں دینا چاہتی جو بلوچ عوام کے قومی شعور کو بیدار کرے۔ چاہے وہ جماعتیں ہوں جو پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر جدوجہد کرتی ہیں یا وہ گروہ جو مکمل آزادی کے علمبردار ہیں، دونوں ریاستی جبر کا شکار ہیں۔یہ عدم برداشت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پنجابی استعمار بلوچ قوم کے وجود اور شناخت کو ہی ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ ریاست کی پالیسی یہ ہے کہ بلوچ عوام کو خوف اور دہشت کے ماحول میں اس قدر پسپا کر دیا جائے کہ وہ نہ سیاسی جدوجہد کر سکیں اور نہ ہی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔
شال میں ہونے والے دھماکے کا بنیادی مقصد دہشت اور خوف پھیلانا تھا۔ بلوچ رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کو اس قدر خوفزدہ کر دینا کہ وہ جلسے، جلوس یا کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے گریز کریں۔ اس طرح عوامی سیاسی مزاحمت کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بلوچ عوام کی اجتماعی توجہ کو ریاستی اداروں کے جاری آپریشنز، جبری گمشدگیوں اور قتل و غارت گری سے ہٹا کر دہشت گرد حملوں کی طرف موڑ دینا، تاکہ اصل مجرم پسِ پردہ رہ سکیں۔یہ حکمتِ عملی دراصل ایک نفسیاتی جنگ ہے، جس کے ذریعے ریاست یہ پیغام دیتی ہے کہ "بلوچ نام لینے کی سزا موت ہے”۔ ایسے واقعات کا مقصد بلوچ عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ اگر وہ اپنی قومی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار نہ ہوئے تو ان کا انجام وہی ہوگا جو شال دھماکے کے متاثرین کا ہوا۔بلوچستان میں ریاستی خفیہ ادارے دہائیوں سے ایک منظم "ڈیتھ مشینری” کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
داعش خراسان کی انٹری ایک نیا مرحلہ ہے جس کے ذریعے عالمی سطح پر دہشت گردی کے بیانیے کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ تحریک کو بدنام کیا جا رہا ہے اور آزادی کی جدوجہد کو "دہشت گردی” کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ تمام ہتھکنڈے دراصل اسی ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں جو نوآبادیاتی ڈھانچے کو قائم رکھنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ ریاست کا یہ بیانیہ عالمی طاقتوں کو دھوکہ دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے، تاکہ وہ بلوچستان میں ہونے والے مظالم کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے بجائے محض "انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں” سمجھیں۔شال دھماکہ ایک المناک سانحہ ہی نہیں، بلکہ بلوچستان میں جاری ریاستی تسلط کے خاتمے کے اس گہرے بحران کی علامت ہے جس سے خطہ گزر رہا ہے۔ بلوچ قوم کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی قومی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کو مزید منظم اور مربوط کرے۔
پاکستانی قابض ریاست نے جس منظم جبر، بھیانک نسل کشی اور اجتماعی سزا کے ذریعے بلوچ قوم کو مقبوضہ بنانے کی کوشش کی ہے، وہ نوآبادیاتی سامراج کے بدترین مظاہر میں سے ایک ہے۔ آج نہ صرف آزادی پسند قوتیں اس خونریز یلغار کا نشانہ ہیں، بلکہ وہ عناصر بھی جو ریاستی آئین اور پارلیمانی سیاست کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ریاست کے قہر و جبر سے محفوظ نہیں۔یہ اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ قابض ریاست کے نزدیک بلوچ کے لیے "مطالبات” کی کوئی حیثیت نہیں، خواہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی مانگ ہو یا قومی آزادی کا نعرہ۔ ریاست نے دونوں کے لیے ایک ہی سزا تجویز کر رکھی ہے۔ ریاست کے نزدیک بلوچ کا جرم اس کے مطالبات نہیں بلکہ اس کی قومیت ہے۔ چاہے وہ روٹی مانگے یا آزادی، دونوں کی قیمت خون ہے۔
پاکستان جیسی ریاست، جو نہ ایک تاریخی قوم ہے، نہ اس کے پاس کوئی تہذیبی پس منظر ہے، اور نہ ہی اس کا وجود کسی رضاکارانہ اتحاد کا نتیجہ ہے، اپنی بقا کے لیے صرف فوجی طاقت اور دھوکے پر انحصار کرتی ہے۔ یہ ریاست اپنے اندرونی تضادات کو چھپانے اور اپنی سامراجی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے بلوچ سرزمین کو میدانِ جنگ بنائے ہوئے ہے۔اس کے برعکس بلوچ قوم ایک قدیم تاریخ، منفرد ثقافت اور وسیع جغرافیے کی وارث ہے۔ بلوچ کی مزاحمتی تاریخ اور اس کی جاری تحریکِ آزادی ایک زندہ حقیقت ہے، جو نہ کسی فوجی منصوبہ بندی سے ختم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی پارلیمانی سیاست کے فریب سے دبائی جا سکتی ہے۔ بلوچ قوم کے سامنے ایک واضح مستقبل ہے: آزادی اور خودمختاری۔ یہ منزل کوئی خواب یا خیال نہیں بلکہ ایک فطری حق ہے جو اقوامِ عالم کی جمہوری اقدار اور انسانی اصولوں کے عین مطابق ہے۔
لہٰذا اگر ریاست اپنی مجرمانہ پالیسی میں بالکل واضح ہے، تو بلوچ کو بھی کسی قسم کے ابہام کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ابہام اور تذبذب صرف نقصان دہ ہیں اور تحریک کے راستے کو کمزور کرتے ہیں۔تاریخ بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ جو بھی سیاسی قوتیں قابض ریاست کے ساتھ کسی سطح پر مصالحت یا مفاہمت کی کوشش کرتی ہیں، ان کا انجام موت یا سیاسی ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستانی فوج کے سامنے سر بسجود نام نہاد سیاستدان اور کرائے کے نمائندے وقتی طور پر بچ تو سکتے ہیں، مگر وہ نہ اپنی قوم کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ اپنی عزت بچا سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے سیاستدانوں کو استعمال کرنے کے بعد ریاست خود انہیں ذلت کے ساتھ کنارے پھینک دیتی ہے۔
دوسری طرف، وہ تمام گروہ جو سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ پارلیمانی ذرائع کے ذریعے اپنے عوام کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، وہ بھی آخرکار اسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ ریاست کی نظر میں سچ بولنا سب سے بڑا جرم ہے۔
یہی وہ مرحلہ ہے جہاں بی این پی کو فیصلہ کن موڑ لینا ہوگا۔ پارلیمانی سیاست کے داعی اگر واقعی بلوچ قوم کے خیرخواہ ہیں، تو انہیں چاہیے کہ اپنی طرزِ عمل اور راستے پر گہری نظرِ ثانی کریں۔ انہیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آزادی پسند قوتوں کے ساتھ سیاسی و فکری ہم آہنگی ہی وہ واحد راستہ ہے جو بلوچ کو نجات کی طرف لے جا سکتا ہے۔
بلوچ آزادی کی تحریک ایک مرکزی دھارا ہے، جو قربانیوں، فکری وضاحت اور عملی مزاحمت سے تشکیل پایا ہے۔ اس دھارے کے برعکس کوئی بھی راستہ محض وقتی سہارا یا ذاتی مفاد کا کھیل ہے۔ وہ قوتیں جو اس مرکزی دھارے سے ہٹ کر چلتی ہیں، نہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ تحریک کو بھی کمزور کرتی ہیں۔
تاریخی حقائق اور موجودہ زمینی صورتحال واضح کر چکے ہیں کہ بلوچ کی نجات صرف آزادی میں ہے، اور آزادی کا راستہ صرف مزاحمت سے ہو کر گزرتا ہے۔ بلوچ قوم آج ایک فیصلہ کن مرحلے پر کھڑی ہے۔ ایسی صورتحال میں کسی قسم کے ابہام، تذبذب یا مفاہمت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔بلوچ کو اپنی تاریخ، ثقافت اور قربانیوں کی بنیاد پر ایک متحدہ اور واضح موقف اختیار کرنا ہوگا۔ پارلیمانی سیاست کے سراب کے پیچھے دوڑنا بند کرنا ہوگا، کیونکہ یہ راستہ ہمیشہ موت، ذلت اور قومی تباہی پر ختم ہوتا ہے۔
بلوچ کا مستقبل ایک زندہ، خودمختار اور باوقار ریاست میں ہے، اور یہ منزل صرف مزاحمت، اتحاد اور شعور کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی میں نہ صرف بلوچ قوم کی بقا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل اور اس سرزمین کا وقار بھی پوشیدہ ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جب بلوچ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ تاریخ کا حصہ بن کر آزادی کا پرچم بلند کرے گا، یا ریاستی جبر کے سامنے جھک کر ایک غلام قوم کے طور پر گمنامی میں ڈوب جائے گا۔