
جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت کی جبری گمشدگی کے خلاف دھرنا جمعرات کو اپنے 51ویں روز میں داخل ہوگیا۔ مسلسل بارش کے باوجود بزرگ خواتین اور بچے بھی اس احتجاج میں شریک ہیں اور انہوں نے پرامن ریلی کے ذریعے اپنے مطالبات دہرائے۔ مظاہرین نے کہا کہ ان کے بنیادی مطالبات بی وائی سی رہنماؤں کی فوری رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہے جو تاحال تسلیم نہیں کیے گئے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سات ہفتوں سے زائد عرصے کے دوران انہیں بارش، گرمی، ہراسانی اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ریاستی ادارے نہ صرف مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہے بلکہ مظاہرین کی نقل و حرکت محدود کرنے اور ان پر نظر رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ادھر کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ بھی 31ویں روز میں داخل ہوگیا۔ سخت گرمی اور حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود لاپتہ نوجوانوں کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
ملیر سے لاپتہ ہونے والے صادق مراد کی بازیابی اور گھر واپسی کی خبر نے احتجاجی کیمپ میں شریک خاندانوں کو کسی حد تک حوصلہ دیا ہے۔ لاپتہ زاہد بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے کہا کہ “صادق مراد کی رہائی ہمیں امید دیتی ہے کہ باقی نوجوان بھی ایک دن ضرور واپس آئیں گے۔”
اہلخانہ کا کہنا ہے کہ کراچی سے لاپتہ ہونے والے نوجوان بے گناہ ہیں اور انہیں بلاجواز قید میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ ان پر لگائے گئے الزامات ثابت ہوسکیں۔
یاد رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں بشمول لیاری، ماری پور، لال بکھر ہاکس بے اور ملیر سے ایک درجن سے زائد بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ ہیں جن کے خاندان شدید ذہنی، معاشی اور سماجی مشکلات کا شکار ہیں۔