”وار آف دی فلی ایک تجزیاتی مطالعہ“ اور بلوچ گوریلا جنگ

تحریر: رامین بلوچ (آخری حصہ)
زرمبش مضمون

ٹیبر نے کہا کہ گوریلا تحریک عوام سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ بلوچ تحریک کی بنیاد بھی عوامی قربانیوں اور مسلسل مزاحمت پر قائم ہے۔ بلوچ نوجوان، طلبہ اور مزدور اپنے شہداء کی میراث کو کو زندہ رکھ کر جدوجہد کو توانائی دیتے ہیں۔”وار آف دی فلی” کے مطابق گوریلا جنگ فوری نتائج نہیں دیتی بلکہ برسوں چلتی ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد بھی کئی دہائیوں پر محیط ہے اور آج بھی صبر و استقامت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔بلوچ سرزمین کے پہاڑ اور وادیاں گوریلا جنگ کے لیے فطری میدان فراہم کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ویتنام کے جنگلات یا کیوبا کے پہاڑ انقلابی قوتوں کے لیے ڈھال ثابت ہوئے۔ٹیبر کے مطابق بڑی طاقت چھوٹے چھوٹے حملوں سے مفلوج ہو جاتی ہے۔ بلوچ تحریک نے بھی قابض ریاستی اداروں کو بارہا یہ احساس دلایا ہے کہ نظریاتی طور پر متحد عوامی وقومی تحریک کو شکست دینا ناممکن ہے۔

گوریلا جنگ کی تھیوری اور اس کی عملی صورت ہمیشہ سے دنیا کی قومی آزادی کی تحریکوں میں مرکزی حیثیت رکھتی رہی ہے۔ امریکی محقق اور گوریلا جنگ پر مستند کتاب "وار آف دی فلی کے مصنف رابرٹ ٹیبر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گوریلا جنگ محض عسکری تصادم کا نام نہیں، بلکہ اپنی جڑوں میں ایک سیاسی جدوجہد ہے۔ یہی نظریہ بلوچ قومی تحریک میں بھی اپنی پوری معنویت کے ساتھ جھلکتا ہے، جہاں جنگی عمل اور سیاسی عمل ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ یکجا ہو کر جدوجہد آزادی کو توانائی بخشتے ہیں۔ٹیبر کا استدلال ہے کہ گوریلا جنگ کا اصل مقصد عوام کے دل و دماغ کو اپنی جانب متوجہ کرنا اور ایک ایسی سیاسی طاقت تشکیل دینا ہے جو بالآخر ریاستی جبر اور نوآبادیاتی ڈھانچے کو کمزور کر سکے۔ اس کے نزدیک گوریلا جنگ اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ عوامی بنیادوں پر استوار ہو اور اپنی نظریاتی سمت کو واضح رکھے۔
ٹیبر کے مطابق:گوریلا تنظیم کو صرف فوجی ڈھانچے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اسے سیاسی نظریے اور مقصد کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ایک تحریک کو مرکزیت اور لچک کے امتزاج سے آگے بڑھنا چاہیے: یعنی ایک واضح نظریہ ہو لیکن مقامی سطح پر آزاد اور فعال یونٹس اپنی زمین، حالات اور عوامی قوت کے مطابق عمل کر سکیں۔بلوچ قومی تحریک اپنی اصل میں ایک سیاسی تحریک ہے جو نوآبادیاتی قبضہ، وسائل کی لوٹ مار اور قومی شناخت کی بیخ کنی کے خلاف کھڑی ہے۔ اس تحریک کی مسلح جہت اگرچہ نمایاں ہے، مگر وہ صرف ایک ہتھیار ہے، بنیاد اس کی سیاست ہے۔ٹیبر نے گوریلا تنظیموں کی ساخت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی تحریک اپنی ساخت میں سخت اور غیر لچکدار ہو تو وہ ریاستی جارحیت کے چند جھٹکوں میں ٹوٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کی ساخت لچکدار اور غیرمرکزی یونٹوں پر مبنی ہو تو وہ بار بار ضرب سہہ کر بھی زندہ رہتی ہے۔بلوچ تحریک اس اصول کی بہترین مثال ہے: تحریک میں مختلف علاقوں میں چھوٹے، متحرک اور خودمختار یونٹ سرگرم ہیں۔ یہ اپنے علاقے کے جغرافیہ، ثقافت اور عوامی حمایت کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔اگرچہ یونٹ اپنی حکمت عملی میں آزاد ہیں، لیکن ان کی فکری اور نظریاتی جڑت مرکزی مقصد سے ہے۔
مصنف جنگ کو ایک استعارے سے شروع کرتا ہے: "پسو”)گوریلا(اور "کتا” )قابض ریاست،فوج یعنی گوریلا ایک "پسو” (Flea) کی طرح ہے جو طاقتور "کتا)” (Dog ریاست / فوج کو بار بار کاٹتا ہے۔پسو چھوٹا ہے، لیکن مسلسل کاٹتا رہتا ہے اور کتے کو بے سکون کر دیتا ہے۔فوج بڑی اور منظم ہے لیکن ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی۔جبکہ گوریلا کہیں بھی حملہ کر کے غائب ہو سکتا ہے اورچھوٹے چھوٹے حملے کر کے دشمن کو تھکاتا اور عوام میں مزاحمت کی آگ کو زندہ رکھتا ہے۔یہ جنگ لمبی ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ طاقتور فوج کو بھی ہرا دیتی ہے کیونکہ وہ عوام کا دل و دماغ نہیں جیت پاتی۔گوریلا کا ہتھیار اُس کا نظریہ اور عوامی تائید ہے۔گوریلا شمن کو تھکا کر، نفسیاتی دباؤ ڈال کر اور عوامی حمایت کے ذریعے جیتتا ہے۔عوام خوراک، پناہ، معلومات اور جذباتی حمایت فراہم کرتے ہیں۔گوریلا کبھی "براہِ راست جنگ” نہیں لڑتا بلکہ "ہٹ اینڈ رن” کی پالیسی اپناتا ہے۔چھوٹے چھوٹے حملے، گھات لگا کر مارنا، اچانک دھاوا بولنا، اور پھر غائب ہو جانا۔وقت گوریلا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ قبضہ گیر فوج ٹینک، توپ اور طیارے رکھتی ہے، لیکن یہ سب کچھ جنگل، پہاڑوں اور شہروں میں گوریلا کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔بڑی فوج ہر جگہ نہیں جا سکتی اور ہر گاؤں پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ریاست عوام پر جبر کر کے وقتی کنٹرول تو قائم کر لیتی ہے، لیکن جبر ہمیشہ زیادہ نفرت کو جنم دیتا ہے۔
مصنف کا استدلال ہے کہ گوریلا جنگ ہمیشہ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچتی ہے۔ اس کے تین بنیادی ادوار ہوتے ہیں:ابتدائی مرحلہ میں عوامی بیداری اور نظریاتی تیاری پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب عوام کے اندر سیاسی شعور اجاگر کیا جاتا ہے اور نظریاتی بنیادیں مضبوط کی جاتی ہیں۔درمیانی مرحلہ میں چھوٹے پیمانے پر حملے کیے جاتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ دشمن کو مسلسل مصروف رکھا جائے، اس کی نقل و حرکت محدود کی جائے اور اس کے اندر خوف اور غیر یقینی کیفیت پیدا کی جائے۔آخری مرحلہ فیصلہ کن موڑ ہوتا ہے، جب عوامی مزاحمت اور مسلح جدوجہد اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں گوریلا تحریک ایک بڑے اور منظم عسکری ڈھانچے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
مصنف کے استدلال کے مطابق، آج بلوچ گوریلا جنگ اپنے تیسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ گھات لگا کر حملے کرنا، فدائی کارروائیاں، شاہراہوں پر ناکہ بندی اور سنیپ چیکنگ جیسی سرگرمیاں اب معمول کا حصہ ہیں۔ بلوچستان کا بی ایریا مکمل طور پر گوریلاؤں کے کنٹرول میں ہے، جبکہ اے ایریا بھی پچاس فیصد حد تک ان کے تصرف میں آ چکا ہے۔ اب گوریلا صرف مدافعانہ حکمتِ عملی تک محدود نہیں رہے، بلکہ باقاعدہ دشمن کے ٹھکانوں پر چھاپے مارتے اور بڑے آپریشن انجام دیتے ہیں۔اگرچہ گوریلا جنگ ایک غیر روایتی حربی حکمتِ عملی سمجھی جاتی ہے، لیکن آج بلوچ تحریک ایک منظم اور روایتی فوج کی مانند ڈھانچہ اختیار کر چکی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب کسی جدوجہد کے پیچھے عوامی حمایت اور نظریاتی وابستگی موجود ہو تو وہ تحریک غیر منظم ٹکڑیوں سے نکل کر
ایک منظم قوت میں ڈھل جاتی ہے۔

مصنف پیش گوئی کرتا ہے کہ مستقبل میں دنیا کی بیشتر آزادی کی تحریکیں اسی گوریلا طرزِ جنگ پر چلیں گی۔ بڑی فوجی طاقتیں اگرچہ جدید ٹیکنالوجی اور اسلحے سے لیس ہوں گی، لیکن چھوٹے گروہ عوامی حمایت اور اجتماعی مزاحمت کے بل بوتے پر ان کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے جسے "وار آف دی فلی” کہا جاتا ہے یعنی چھوٹا لیکن مسلسل کاٹنے والا حملہ، جو بالآخر بڑے دشمن کو مفلوج اور شکست خوردہ کر دیتا ہے۔دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ طاقت ہمیشہ ہتھیاروں اور لشکروں کے زور پر قائم نہیں رہتی۔ بڑے بڑے سامراجی لشکر اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوجیں بھی اس وقت بے بس ہو جاتی ہیں، جب ان کا سامنا عوامی شعور، نظریاتی وابستگی اور انقلابی استقامت سے ہوتا ہے۔ یہی قوت بالآخر فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے اور یہی عوامی مزاحمت کی اصل روح ہے۔
گوریلا حکمتِ عملی کا اصول سادہ ہ اور لچکدار ہے،وہ گھات لگا کر حملہ کرتا ہے، چھوٹے چھوٹے دھاوے بولتا ہے، دشمن کو غیر یقینی کیفیت میں رکھتا ہے، اور پھر فوراً غائب ہو جاتا ہے۔ اس طرح دشمن کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ کبھی بھی محفوظ نہیں۔ اس حکمتِ عملی سے وقت کے ساتھ طاقتور فوج تھک جاتی ہے، وسائل ضائع ہوتے ہیں اور عوام کی حمایت بھی کھو دیتی ہے۔مصنف واضح کرتی ہے کہ استعماری ریاستیں اگرچہ ٹینک، طیارے اور توپوں سے لیس ہوتی ہیں لیکن وہ ہر جگہ موجود نہیں رہ سکتیں۔ ایک فوج پورے ملک یا خطے پر مسلسل کنٹرول قائم نہیں رکھ
سکتی۔ جب فوج عوام پر جبر کرتی ہے تو وقتی طور پر تو سکون قائم ہوتا ہے مگر درحقیقت اس جبر سے مزید نفرت اور مزاحمت جنم لیتی ہے۔ یہی تضاد گوریلا کے حق میں جاتا ہے۔وار آف دی فلی”ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل طاقت بندوق یا فوج میں نہیں بلکہ عوامی شعور، وقت، اور نظریاتی استقامت میں ہے۔ گوریلا جنگ کمزور کا ہتھیار ہے مگر اگر وہ عوام سے جڑی ہو تو دنیا کی سب سے بڑی فوج بھی اسے ختم نہیں کر سکتی۔ یہ کتاب آج بھی اُن تمام تحریکوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو جبر، سامراج اور غلامی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
ٹیبر نے بارہا گوریلا کو "پسو” اور ریاست کو "کتا” کہا۔ کتا جتنا بھی بڑا ہو، پسو کی لگاتار کاٹنے والی اذیت اسے بے چین کر دیتی ہے۔ گوریلا بھی ایسا ہی ہے۔ گوریلا کا ہتھیار "ہٹ اینڈ رن” ہے۔ وہ گھات لگا کر وار کرتا ہے، اچانک حملہ کرتا ہے، اور پھر دھند کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ اس کا مقصد دشمن کے اعصاب توڑ دینا ہے۔ دشمن جب سوتا بھی ہے تو ڈر کے ساتھ سوتا ہے، جب جاگتا ہے تو خوف کے ساتھ جاگتا ہے۔ یہی خوف طاقتور کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ٹیبر نے کہا تھا کہ آنے والے زمانے کی زیادہ تر جنگیں گوریلا طرز پر لڑی جائیں گی۔ طاقتور ریاستیں اپنی فوجی طاقت پر ناز کریں گی، لیکن کمزور قومیں اپنی مزاحمتی قوت سے انہیں جھکا دیں گی۔ یہی“وار آف دی فلی”ہے: چھوٹا مگر مسلسل وار جو بڑے کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا بلوچ گوریلا جنگ میں یہی حکمتِ عملی نظر آتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں گھات لگا کر حملے، چھوٹے چھوٹے وار، سیکورٹی فورسز پر اچانک دھاوا، اور پھر پہاڑوں یا صحراؤں میں غائب ہو جانا یہ سب ٹیبر کی تھیوری کا عملی عکس ہے۔
رابرٹ ٹیبر کی شہرہئ آفاق کتاب وار آف دی فلی محض عسکری حکمتِ عملی کا خاکہ نہیں، بلکہ ایک گہرا نظریاتی بیانیہ ہے۔ یہ کتاب ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ طاقتور فوجی قوت اور جدید اسلحہ رکھنے والی ریاستیں ہمیشہ فیصلہ کن برتری حاصل نہیں کرتیں۔ اصل قوت اس نوآبادی طاقت میں پنہاں ہوتی ہے جو اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دینے پر آمادہ ہو۔ٹیبر کے مطابق گوریلا جنگ ایک "پسو” کی مانند ہے جو "کتے ” پر سوار ہو کر اس کی نیند، سکون اور طاقت کو چاٹ جاتا ہے۔ کتا کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو، وہ پسو کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پاتا۔ یہی فلسفہ ہر اس تحریک پر لاگو ہوتا ہے جو طاقتور فوجی ڈھانچے کے مقابل عوامی بنیادوں پر ابھرتی ہے۔
بلوچ گوریلا جنگ اسی تصور کا زندہ عکس ہے۔ ایک طرف ایٹمی طاقت رکھنے والی ریاست ہے، جس کے پاس جدید اسلحہ، ٹینک، جنگی طیارے اور بے شمار وسائل ہیں۔ دوسری طرف بلوچ مزاحمت کار ہیں، جو پہاڑوں کی پناہ، عوام کی محبت اور آزادی کی تڑپ کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچ گوریلا کا اصل ہتھیار نظریہ ہے وہ یقین کہ غلامی کبھی دائمی نہیں رہ سکتی، اور آزادی ہر قوم کا مقدس حق ہے۔
ٹیبر کے خیالات میں گوریلا کی سب سے بڑی طاقت اس کی جغرافیائی اور سماجی جڑت ہے۔ گوریلا پہاڑوں، صحراؤں اور دیہات میں اپنی پناہ گاہیں تلاش کرتا ہے، لیکن اس کی اصل پناہ عوام ہیں۔ اگر عوام کا اعتماد نہ ہو تو گوریلا محض ایک مسلح شخص رہ جاتا ہے، لیکن جب عوام اپنی محبت اور قربانیوں کے ساتھ کھڑے ہوں تو وہ تحریک ناقابلِ شکست بن جاتی ہے۔ بلوچ گوریلا کے لیے یہی عوامی محبت اس کی بقا کا راز ہے
، قابض ریاستیں اکثر یہ سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں کہ گوریلا تحریکیں صرف عسکری نہیں بلکہ سماجی و نظریاتی مظاہر ہیں۔ وہ نہ صرف بندوق کے
ذریعے لڑتی ہیں بلکہ اپنے کلچر، اپنی زبان اور اپنی تاریخ کو بھی ہتھیار بناتی ہیں۔ بلوچ تحریک بھی اسی اصول پر قائم ہے؛
وار آف دی فلی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ "کمزور” ہمیشہ "طاقتور ” کو ہرا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے پاس نظریہ اور عوامی جڑت ہو۔ بلوچ جدوجہد اس خیال کو حقیقت کا روپ دیتی ہے۔ یہ جنگ اس بات کی گواہی ہے کہ ٹینک اور طیارے قومی عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ آزادی کی تڑپ ہی وہ قوت ہے جو پسو کو کتے پر غالب کرتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد دھرنا 51ویں روز میں داخل، کراچی میں احتجاجی کیمپ بھی جاری

جمعرات ستمبر 4 , 2025
جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت کی جبری گمشدگی کے خلاف دھرنا جمعرات کو اپنے 51ویں روز میں داخل ہوگیا۔ مسلسل بارش کے باوجود بزرگ خواتین اور بچے بھی اس احتجاج میں شریک ہیں اور انہوں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ