
جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر جاری احتجاجی کیمپ آج 30ویں روز میں داخل ہو گیا۔ کیمپ میں لاپتہ نوجوانوں کے اہلخانہ، خواتین، بزرگ اور بچے بڑی تعداد میں شریک ہیں، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر آئین کی بالادستی، انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کے مطالبات درج تھے۔
اس موقع پر لاپتہ نوجوان زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے کہا کہ حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود تاحال کسی نوجوان کو رہا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے بیٹے کو بغیر کسی عدالتی حکم یا قانونی کارروائی کے حراست میں لیا گیا۔ “اگر اس پر کوئی الزام ہے تو شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے، یوں غائب کر دینا آئین اور انصاف دونوں کے منافی ہے،” انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کا بیٹا کراچی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں گریجویشن مکمل کر کے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رکشہ چلاتا تھا۔ “وہ دن رات محنت کرتا تاکہ اپنی تعلیم کا صلہ اپنے گھر والوں کو دے سکے،” ان کا کہنا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ خود جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں اور مالی مشکلات کے باعث پورا خاندان ذہنی و جسمانی اذیت میں مبتلا ہے۔
احتجاجی کیمپ میں شریک مظاہرین نے الزام لگایا کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے درجن سے زائد بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں، جن میں شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ، رحمان بلوچ، میر بالاچ بلوچ اور صادق مراد بلوچ شامل ہیں۔ اہلخانہ کے مطابق ان کی غیر موجودگی سے پورے خاندان سخت کرب اور مسائل کا شکار ہیں۔
مظاہرین نے واضح کیا کہ جب تک لاپتہ نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف نہیں ملتا، احتجاجی تحریک مزید وسعت اختیار کرے گی۔