”وار آف دی فلی ایک تجزیاتی مطالعہ“ اور بلوچ گوریلا جنگ

تحریر: رامین بلوچ (حصہ دوئم)
زرمبش مضمون

رابرٹ ٹیبر نے اپنیر کتاب وار آف دی فلی میں اس حقیقت کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا ہے کہ گوریلا جنگ انسانی تاریخ میں مقبوضہ اقوام کی مزاحمت کا ایک مؤثر ذریعہ رہی ہے۔ روایتی جنگ میں جہاں فوجی طاقت، جدید ہتھیار اور عددی برتری فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، وہیں گوریلا جنگ میں اصل کامیابی کا راز مختلف اصولوں اور حکمتِ عملیوں میں پوشیدہ ہے گوریلا جنگ محض عسکری معرکہ نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر سماجی، سیاسی اور فکری جدوجہد ہے۔ٹیبر کے مطابق گوریلا جنگ کی کامیابی تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے: عوامی حمایت، سیاسی وژن و مقصد کی وضاحت، اور تنظیم و حکمتِ عملی۔ یہ تینوں عوامل آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور کسی ایک کے کمزور ہونے سے پوری تحریک خطرے میں پڑ سکتی ہے۔گوریلا جنگ کے بارے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ عوام کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ٹیبر نے واضح کیا کہ گوریلا جنگ کا اصل میدان صرف پہاڑ، جنگل یا میدانِ جنگ نہیں، بلکہ عوام کے دل و دماغ ہیں۔ اگر عوام تحریک کے ساتھ کھڑے ہوں تو دشمن کی عسکری طاقت بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔عوام پناہ گاہ بن جاتے ہیں: گوریلا جنگجو دشمن کے لیے "غائب” ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام ان کے محافظ اور مددگار ہوتے ہیں۔عوام معلومات کا ذریعہ ہوتے ہیں: دشمن کی نقل و حرکت، کمزوریاں اور پوزیشن کے بارے میں خبر سب سے پہلے عوام پہنچاتے ہیں۔عوام قربانی دینے پر تیار ہوں تو تحریک کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ دبایا جا سکتا ہے۔اسی لیے ٹیبر نے کہا کہ اگر عوام کی حمایت کمزور ہو جائے تو گوریلا جنگ ایک "تنہا عسکری مہم” بن کر رہ جاتی ہے جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔

ٹیبر کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ گوریلا جنگ صرف بندوق چلانے کا نام نہیں، بلکہ ایک واضح سیاسی وژن اور مقصد کی وضاحت کے بغیر یہ تحریک کمزور ہو جاتی ہے۔مبہم مقصد نقصان دہ ہے: اگر عوام کو یہ یقین نہ ہو کہ یہ جدوجہد ان کی آزادی، انصاف یا بہتر مستقبل کے لیے ہے، تو وہ قربانیاں دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔سیاسی پروگرام تحریک کو جواز دیتا ہے: ایک ٹھوس نظریاتی اور سیاسی خاکہ عوام کو یہ اعتماد دیتا ہے کہ یہ قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی۔سیاسی قیادت اور فکری رہنمائی گوریلا جنگ کو محض عسکری مزاحمت کے بجائے قومی یا انقلابی تحریک بنا دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی کامیاب گوریلا تحریکوں، مثلاً ویت نام، کیوبا یا الجزائر میں، مقصد کی وضاحت اور سیاسی وژن نے عوامی حمایت کو پائیدار بنایا۔

گوریلا جنگ کی کامیابی کا تیسرا ستون مضبوط تنظیم اور لچکدار حکمتِ عملی ہے۔ ٹیبر نے اس بات پر زور دیا کہ گوریلا جنگ میں بڑی افواج یا بھاری ہتھیار کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے، بلکہ چھوٹے چھوٹے یونٹس کی منظم کارروائیاں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔چھوٹے یونٹس دشمن پر اچانک حملہ کرتے ہیں اور فوراً غائب ہو جاتے ہیں۔لچکدار حکمتِ عملی گوریلا جنگجو کو وقت اور حالات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت دیتی ہے۔وقت کے ساتھ ڈھلنے کی قوت گوریلا جنگ کو طویل المدتی مزاحمت میں بدل دیتی ہے، جس میں دشمن تھک کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتا ہے۔ٹیبر نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اگر گوریلا جنگ ایک "میکانیکی” یا سخت ڈھانچے میں جکڑ دی جائے تو وہ اپنی روح کھو دیتی ہے۔ اصل طاقت اس کی حرکت، لچک اور عوام کے ساتھ جڑت میں ہے۔تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ عوام کے بغیر گوریلا جنگ محض ایک وقتی شورش ہے، لیکن جب عوام، مقصد اور تنظیم ایک ساتھ ہوں تو یہ جنگ وقت کی سب سے بڑی سلطنتوں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
”وار آف دی فلی”میں ٹیبر نے کامیاب اور ناکام دونوں طرح کی گوریلا تحریکوں کا تجزیہ کر کے یہ دکھایا کہ گوریلا جنگ محض ہتھیاروں کی لڑائی نہیں بلکہ عوامی ارادے اور سیاسی مقصد کی جنگ ہے۔ ویت نام اور کیوبا اس بات کی روشن مثالیں ہیں کہ جب عوام جدوجہد کا حصہ بن جائیں تو دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں بھی شکست کھا جاتی ہیں۔ اس کے برعکس قبرص اور یونان جیسی تحریکیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اگر عوامی حمایت اور نظریاتی وضاحت نہ ہو تو گوریلا جنگ اپنی روح کھو دیتی ہے۔یہی ٹیبر کا سب سے بڑا پیغام ہے: گوریلا جنگ اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ عوام کے دلوں میں ایک امید، ایک مقصد اور ایک خواب کو زندہ کرے۔

گوریلا جنگ تاریخ انسانی میں ایک ایسا باب ہے جو کمزور اور طاقتور کے درمیان توازنِ قوت کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ یہ کتاب گوریلا جنگ کے اصول، مقاصد، حکمت عملی، طریقہئ کار اور سیاسی و سماجی بنیادوں کا ایک عمیق مطالعہ فراہم کرتی ہے۔ویت نام کی مثال اس سلسلے میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ویت منھ اور بعد ازاں ویت کانگ نے نہ صرف فرانسیسی اور امریکی سامراج کو شکست دی بلکہ یہ ثابت کیا کہ گوریلا جنگ عوامی تائید اور نظریاتی عزم کے بغیر ممکن نہیں۔ ویت نامی قیادت نے زمین، کلچر، تاریخ اور عوام کی امنگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر سامراجی طاقتوں کے خلاف ایک دیرپا مزاحمت کھڑی کی۔اسی طرح کیوبا میں فیڈل کاسترو اور چی گویرا کی قیادت میں برپا ہونے والی تحریک نے یہ دکھایا کہ کس طرح ایک محدود گروہ اپنے نظریے اور عوامی شمولیت کے ذریعے پورے نظام کو بدل سکتا ہے۔ سیرا ماسترا کے پہاڑوں سے شروع ہونے والی جدوجہد آخرکار ہوانا کے تخت و تاج کو ہلا گئی۔آئرلینڈ کی مثال میں آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) کو دیکھا جا سکتا ہے، جس نے صدیوں پر محیط نوآبادیاتی دباؤ کے مقابلے میں مسلسل مزاحمت کی۔ اگرچہ ان کی تحریک کئی اتار چڑھاؤ سے گزری، لیکن ان کی جدوجہد نے یہ ثابت کیا کہ گوریلا جنگ محض عسکری تصادم نہیں بلکہ ایک سماجی و سیاسی جدوجہد کا نام ہے۔
ٹیبر نے یہ بھی واضح کیا کہ گوریلا جنگ اس وقت کامیاب نہیں ہوتی۔ جب کسی تحریک میں عوامی حمایت کی کمی ہو، قیادت متضاد ہو یا حکمت عملی میں پائیداری نہ ہو، تو وہ جلد ہی شکست سے دوچار ہو جاتی ہے۔قبرص کی متشدد تحریک اس کی مثال ہے۔ ایوکا (EOKA) نامی تنظیم نے برطانوی راج کے خلاف ہتھیار اٹھائے، لیکن اس تحریک کی خامیاں اس کی ناکامی کا سبب بنیں۔ عوام کی وسیع حمایت نہ ملنے کے باعث یہ جدوجہد محدود دائرے سے باہر نہ نکل سکی۔اسی طرح یونان میں ڈیموکریٹک آرمی نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد گوریلا جنگ شروع کی، لیکن انہیں سوویت یونین اور مشرقی بلاک سے واضح مدد نہ مل سکی۔ اس کے برعکس مخالفین کو مغربی طاقتوں کی بڑی عسکری و مالی امداد حاصل تھی۔ نظریاتی انتشار، قیادت کی کمزوریاں اور سیاسی یکجہتی کی کمی نے اس تحریک کو ناکامی کی طرف دھکیل دیا۔
رابرٹ ٹیبر کی تصنیف گوریلا جنگ کے مطالعے میں ایک کلاسیکی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کامیاب اور ناکام تحریکوں کے تقابلی جائزے کے ذریعے یہ حقیقت سامنے رکھی کہ گوریلا جنگ محض ہتھیار اٹھانے کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر سماجی، سیاسی اور عسکری عمل ہے۔ کامیابی وہاں ملتی ہے جہاں عوام اپنی آزادی کو اپنی ضرورت سمجھیں، اور ناکامی وہاں آتی ہے جہاں تحریک اپنی جڑوں سے کٹ جائے۔

گوریلا جنگ کا تصور دنیا کی ہر اس قوم کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے جو غلامی، جبر اور سامراجی تسلط سے نجات کی جستجو میں ہے۔ رابرٹ ٹیبر کی نظریات محض تاریخ کا بیان نہیں بلکہ مستقبل کی راہیں متعین کرنے والا سیاسی و انقلابی بیانیہ بھی ہے ویت نام اور کیوبا میں عوام نے اپنی آزادی کو ذاتی اور اجتماعی ضرورت سمجھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر کسان، ہر مزدور اور ہر نوجوان آزادی کی تحریک کا سپاہی بن گیا۔
بلوچ سرزمین اپنی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل اور تاریخی شناخت کے باعث صدیوں سے نوآبادیاتی طاقت کے مراکز کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ تاہم جدید دور میں یہ خطہ اپنی بقا اور آزادی کی جدوجہد کے باعث زیادہ نمایاں ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے محض ایک علاقائی مسئلہ نہ سمجھیں بلکہ دنیا بھر کی ان تحریکوں کے تناظر میں دیکھیں جنہوں نے نوآبادیاتی جبر کے خلاف گوریلا جنگ کو مزاحمت کے ہتھیار کے طور پر اختیار کیا۔بلوچ قوم کی دہائیوں پر محیط مزاحمت صرف سیاسی یا معاشی محرومی کا ردعمل نہیں بلکہ ایک وجودی مسئلہ ہے۔ جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزائیں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور وسائل کی بے دریغ لوٹ مار اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ بلوچوں کے لیے گوریلا جنگ محض عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ اپنی شناخت اور بقا کا سوال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ مزاحمت اپنی فطرت میں ان تمام عالمی گوریلا تحریکوں سے جڑی ہوئی ہے جنہوں نے سامراج یا قابض قوتوں کے خلاف لڑائی لڑی۔ویت نام، کیوبا، آئرش ریپبلکن آرمی اور الجزائر کی تحریکیں اس بات کی روشن مثال ہیں کہ کس طرح محدود وسائل رکھنے والے قومی و عوامی تنظیمیوں نے طاقتور فوجی مشینری کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ ان تحریکوں کی کامیابی کا راز عوامی حمایت، سیاسی وژن اور ناقابلِ تسخیر عزم میں پنہاں تھا۔ بلوچ تحریک میں بھی یہی خصوصیات نمایاں ہیں۔ بلوچ عوام کی اکثریت اس تحریک کو اپنی قومی آزادی کے خواب کی تعبیر سمجھتا ہے اور اسی حمایت کی بنیاد پر مزاحمت
کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستانی ریاست نے بلوچ مزاحمت کو دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلوں میں قتل عام، ماس کلنگ، انسانی بحران، نسل کشی، اجتماعی سزائیں اور سیاسی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ نے تحریک کو ختم کرنے کے بجائے مزید تقویت دی۔گوریلا جنگ کی بنیادی حکمتِ عملی یہ ہے کہ چھوٹے گروہ بڑے دشمن کے خلاف لچکدار اور غیر متوقع حملوں کے ذریعے لڑائی کو طویل کریں اور دشمن کو تھکا دیں۔ بلوچ گوریلا کار اس حکمتِ عملی کو بخوبی اپنائے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں کی جغرافیائی اہمیت، علاقے کی وسعت اور عوامی حمایت انہیں ریاستی فوجی قوت کے مقابلے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔بلوچ مزاحمت کوئی حالیہ پیداوار نہیں بلکہ یہ صدیوں پر محیط ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی تسلط کے دور سے لے کر پاکستان کی جبری الحاقی تک بلوچ قوم نے ہمیشہ آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کی ہے۔ 1948ء میں بلوچستان پر فوجی قبضہ، اور اس کے بعد بار بار کی گئی فوجی آپریشنز اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک ہمیشہ طاقتور قابض قوتوں کے خلاف بقا کی جنگ لڑتی رہی ہے۔کلاسیکی گوریلا جنگ کی طرح بلوچ تحریک بھی چھوٹے چھوٹے یونٹس، پہاڑی جغرافیہ اور گوریلا طرزِ عمل کو اپناتی ہے۔ دشمن کی فوجی برتری کے مقابلے میں "ہٹ اینڈ رن” کی پالیسی اور مقامی زمینی معلومات اس تحریک کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔جہاں ویت کانگ نے امریکی استعمار کے خلاف اپنی جنگ کو عوامی مزاحمت میں بدلا، وہیں بلوچ مزاحمت کار بھی پنجابی عسکری جبر کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ کیوبا کے فیدل کاسترو اور چی گویرا کی تحریک نے دکھایا کہ کس طرح چھوٹے یونٹس بڑے نظام کو ہلا سکتے ہیں۔ اسی طرز پر بلوچ گوریلا کاروائیاں قابض فوجی طاقت کو شکست دینے کے لیے مسلسل دباؤ پیدا کرتی ہیں۔ ایک قدر مشترک ان سب تحریکوں میں یہ ہے کہ وہ محض عسکری برتری کے لیے نہیں بلکہ عوامی آزادی اور شناخت کے تحفظ کے لیے لڑی جاتی ہیں۔بلوچ تحریک کو صرف عسکری جدوجہد تک محدود کرنا حقیقت سے فرار ہوگا۔ یہ ایک ہمہ جہتی تحریک ہے جس میں ادیب، طلبہ، دانشور اور سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں نے پورے بلوچ معاشرے کو گوریلا جنگ کے شعور کے قریب کر دیا ہے۔ ہر گمشدہ بیٹے، ہر شہید استاد اور ہر ماں کی پکار اس تحریک کو مزید توانائی دیتی ہے۔بلوچ گوریلا تحریک محض جنگی حکمتِ عملی نہیں بلکہ یہ بقا اور شناخت کی جنگ ہے۔ وسائل کی لوٹ مار اور زمین سے بے دخلی نے بلوچ عوام کے لیے گوریلا جنگ کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں یہ تحریک کلاسیکی معنوں میں ایک ایسی جنگ ہے جو نوآبادیاتی طاقت اور قابض ریاست کے خلاف ہے، اور جس کا آخری مقصد قومی آزادی ہے۔بلوچ قومی تحریک کی کلاسیکل گوریلا جنگ نہ صرف عسکری تقابل ہے بلکہ ایک مکمل سیاسی و سماجی بیانیہ بھی ہے۔ دنیا کی دیگر مزاحمتی تحریکوں کی طرح بلوچ گوریلا جنگ بھی اس حقیقت کی گواہی ہے کہ استعماری جبر اور نوآبادیاتی تسلط کے سامنے عوامی مزاحمت ہی اصل قوت ہے۔ بلوچ تحریک کی اصل قوت اس کے عوام ہیں۔ گاؤں، پہاڑ اور شہر ہر جگہ عوامی تائید کے بغیر کوئی بھی مزاحمت دیرپا نہیں ہو سکتی۔ بلوچ تحریک نے اسی عوامی رشتے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔دنیا کی ہر قومی آزادی کی تحریک کی کامیابی کا راز اس کے عوام میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر عوامی تائید نہ ہو تو کوئی بھی گوریلا جنگ یا مزاحمتی تحریک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ بلوچ قومی تحریک کی تاریخ اس حقیقت کی ایک زندہ مثال ہے کہ پہاڑوں پر لڑنے والے گوریلا دستے، شہروں میں سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکن اور میدان میں
قربانیاں دینے والے نوجوان دراصل اس وقت ہی طاقتور ہوتے ہیں جب ان کے پیچھے ایک وسیع عوامی حمایت موجود ہو۔

بلوچ تحریک کی اصل قوت اس کا عوامی رشتہ ہے۔ گاؤں، دیہات، پہاڑوں کے درمیان اور شہروں میں بلوچ عوام نے اپنی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد سے تحریک کو زندہ رکھا ہے۔ جب کوئی نوجوان پہاڑوں پر جاتا ہے تو اس کی پشت پر اس کے والدین کا صبر، اس کے گاؤں کا حوصلہ اور اس کے قبیلے کی قربانی شامل ہوتی ہے۔ یہی وہ عوامی رشتہ ہے جو کسی بھی مسلح مزاحمت کو تقویت دیتا ہے۔ عوام کے بغیر گوریلا جنگ محض ایک وقتی مہم جوئی بن کر رہ جاتی ہے، لیکن عوامی حمایت کے ساتھ یہ ایک طویل المدتی قومی مزاحمت میں ڈھل جاتی ہے۔
بلوچ تحریک کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب پہاڑوں پر جاری گوریلا جنگ شہروں میں سیاسی و سماجی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ گوریلا جنگ دشمن کے عسکری ڈھانچے کو چیلنج کرتی ہے جبکہ عوامی تحریک دشمن کے سیاسی و نظریاتی جواز کو کمزور کرتی ہے۔ اگر یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جڑے رہیں تو تحریک کو نہ صرف قوت ملتی ہے بلکہ یہ عوام کے دلوں میں اپنی جڑیں مزید مضبوط کرتی ہے۔آج کے دور میں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے صرف داخلی مزاحمت کافی نہیں۔ جدید دنیا میں رائے عامہ اور سفارتی محاذ پر اپنی موجودگی ثابت کرنا بھی ناگزیر ہے۔ عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے ان تحریکوں کو طاقت بخشتے ہیں جو اپنی جدوجہد کو عالمی سطح پر منوانے میں کامیاب ہوں۔ ویت نام، کیوبا، فلسطین اور جنوبی افریقہ کی تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوامی حمایت اور عالمی رائے عامہ کو ساتھ لے کر چلنے والی تحریکیں زیادہ دیرپا اور کامیاب ہوتی ہیں۔ نلسن منڈیلا کی جدوجہد صرف داخلی مزاحمت تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی سطح پر ایک اخلاقی دباؤ پیدا کیا جس نے سامراجی نظام کو پسپائی پر مجبور کیا۔ بلوچ تحریک کے لیے بھی یہی حکمتِ عملی ناگزیر ہے کہ وہ اپنی آواز کو عالمی سفارتی ایوانوں تک پہنچائے۔ٹیبر کی بصیرت بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک رہنمائی ہے۔ یہ جدوجہد گولی اور بندوق کے ساتھ قومی و عوامی شعور، سیاسی اتحاد اور عالمی یکجہتی کی ہے۔ گوریلا جنگ میں کامیابی اس وقت ملتی ہے جب تحریک عوام کی اجتماعی ضرورت اور زندگی کا حصہ بن جائے۔ بلوچ تحریک اگر اپنی صفوں کو منظم، نظریے کو مستحکم اور عالمی برادری کو اپنا ہم نوا بناتی ہے تو وہ انہی قوموں کی طرح تاریخ میں کامیاب اور تابندہ مثال بن سکتی ہے جنہوں نے گوریلا جنگ کے ذریعے آزادی حاصل کی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد میں بلوچ خاندانوں کا دھرنا 50 ویں روز میں داخل، کل احتجاجی مظاہرے کا اعلان

بدھ ستمبر 3 , 2025
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے اسیر رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں جاری احتجاجی دھرنے کو آج 50 روز مکمل ہوگئے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مظاہرین، جن میں بزرگ خواتین بچے اور دیگر شامل ہیں، سخت موسمی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ