
تحریر: رامین بلوچ (حصہ اول)
زرمبش مضمون
رابرٹ ٹیبر Taber) (Robert امریکی نژاد صحافی اور مصنف تھے، جن کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بیسویں صدی کے وسط میں عالمی سیاست، نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں، اور گوریلا جنگ جیسے حساس موضوعات کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ان پر سائنسی و فکری بنیادوں پر قلم اٹھایا۔ وہ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں امریکی شہر شکاگو میں پیدا ہوئے۔ ان کا زمانہئ پیدائش اس عہد سے جڑا ہوا تھا جب دنیا پہلی جنگ عظیم کے زخم سہل رہی تھی اور بیسویں صدی کی عالمی سیاست نئے خطوط پر تشکیل پارہی تھی۔
ٹیبر نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور رپورٹر کیا۔ انہوں نے ابتدائی دنوں میں Evening News Queen جیسے موقر ادارے میں کام کیا، جہاں انہوں نے صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ عالمی امور پر اپنی باریک بینی اور تجزیاتی صلاحیت کو نکھارا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی اور صحافت محض خبر رسانی تک محدود نہ تھی بلکہ سیاسی نظریات اور عالمی تنازعات کی سمت متعین کرنے میں بھی کردار ادا کررہی تھی۔
1950 کی دہائی میں ٹیبر نے Canadian Broadcasting Corporation (CBC) سے وابستگی اختیار کی۔ یہ دور صحافت میں ایک نئے عالمی رجحان کا تھا، جہاں نشریاتی ادارے محض خبریں نشر نہیں کرتے تھے بلکہ سامراجی طاقتوں اور ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکوں کے درمیان ہونے والی کشمکش کو دنیا کے سامنے لاتے تھے۔ ٹیبر کی تحریروں اور رپورٹوں میں وہی تیز بصیرت جھلکتی ہے جو انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔رابرٹ ٹیبر نے صرف صحافت ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے عالمی سیاست اور نوآبادیاتی جنگوں پر کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف of The Flea”(“Warوار آف دی فلی ہے، جو 1965 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب نے گوریلا جنگ کے اصولوں اور نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف چھوٹے مگر پرعزم گروہوں کی مزاحمت کو سائنسی انداز میں بیان کیا۔ اس کتاب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ایک منظم اور طاقتور فوج کے خلاف چھوٹی مگر نظریاتی طور پر مضبوط تحریک، مسلسل مزاحمت کے ذریعے بڑی طاقت کو مفلوج کر سکتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک پسو بڑے جسم کو کاٹ کر بے چین کرتا ہے۔ٹیبر نے کیوبا، ویتنام اور افریقہ کی آزادی کی تحریکوں پر گہری نظر رکھی۔ وہ ان تحریکوں کو محض رومانی انداز میں پیش کرنے کے بجائے سائنسی تجزیے کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی ان کا اصل کارنامہ تھا کہ انہوں نے نوآبادیاتی جنگوں کو صحافت اور علمی تحقیق دونوں کے لیے موضوع بنایا۔
رابرٹ ٹیبر کا کام اس بات کی دلیل ہے کہ صحافت محض وقت گزارنے کا پیشہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جدوجہد بھی ہے۔ ان کی کتاب "وار آف دی فلی“آج بھی عسکری ماہرین، محققین اور آزادی کی تحریکوں کے کارکنان کے لیے ایک حوالہ ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ چھوٹی اور
کمزور قومیں بھی اگر مسلسل جدوجہد کریں تو بڑی سامراجی طاقتوں کو شکست دے سکتی ہیں۔
رابرٹ ٹیبر کی کتاب“وار آف دی فلی”بیسویں صدی کی جنگی فکر اور انقلابی سیاست کے میدان میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب محض عسکری طریقہئ کار کا بیان نہیں بلکہ ایک نظریاتی دستاویز ہے جس میں گوریلا جنگ کے بنیادی نقاط، حکمت عملی، حربے، تکنیک، پالیسی اور سیاسی و سماجی مقاصد کو نہایت باریک بینی کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ٹیبر کے نزدیک گوریلا جنگ محض عسکری کارروائیوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی، سماجی اور نفسیاتی عمل ہے۔ اس کی بنیاد کسی مظلوم قوم، یا مقبوضہ خطے کی اجتماعی قوت اور عوامی حمایت پر استوار ہوتی ہے۔ گوریلا جنگ اس وقت ابھرتی ہے جب روایتی فوجی طاقت کے مقابلے میں براہِ راست مزاحمت ممکن نہ ہو اور مقبوضہ ایک طویل المدتی جدوجہد کے ذریعے اپنے دشمن کو بتدریج کمزور کریں۔ٹیبر وضاحت کرتے ہیں کہ گوریلا جنگ کا اصل ہتھیار عوام کی حمایت ہے۔ اگر عوام گوریلا مزاحمت کو اپنی بقا اور آزادی کی جدوجہد سمجھ کر اس میں شریک ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ گوریلا جنگ میں چھاپہ مار کارروائیاں، اچانک حملے، Hit and Run) (”مارو اور نکل جاہو“ کی حکمت عملی اور دشمن کو تھکا دینے کا عمل بنیادی ستون سمجھے جاتے ہیں۔
کتاب میں ٹیبر نے واضح کیا ہے کہ گوریلا جنگ میں چھوٹے چھوٹے یونٹس کی تشکیل بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ یونٹس چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے دشمن کے لاجسٹک نظام، سپلائی لائن، مواصلاتی ڈھانچے اور نفسیاتی حوصلے کو نشانہ بناتے ہیں۔ گوریلا فورسز براہِ راست بڑی جنگوں سے گریز کرتی ہیں، کیونکہ ان کا مقصد دشمن کو وقتی شکست دینا نہیں بلکہ اس کی قوت کو آہستہ آہستہ مضمحل کرنا ہوتا ہے۔ٹیبر نے گوریلا جنگ کو محض عسکری سرگرمی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک سیاسی عمل قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر گوریلا جنگ کسی واضح نظریے، عوامی مطالبات اور انقلابی پروگرام کے بغیر لڑی جائے تو وہ محض جرائم یا ڈاکہ زنی کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ گوریلا فورسز عوامی حمایت کو اپنی اصل طاقت سمجھیں، ایک واضح مقصد کے ساتھ میدان میں اتریں اور اپنی جدوجہد کو وسیع سیاسی تحریک سے جوڑیں۔
ٹیبر کی بحث کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ گوریلا جنگ دراصل طاقتور ریاستی تشدد کے خلاف ایک "کاؤنٹر وائلنس” یعنی جوابی تشدد ہے۔ یہ جنگ محض طاقت کے توازن کی لڑائی نہیں بلکہ ایک مقبوضہ قوم کی آزادی کی جدوجہد ہے۔ ٹیبر نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ سامراجی یا قابض قوتیں جدید ہتھیاروں، افرادی قوت اور وسائل کے باوجود گوریلا جنگ میں اس وقت شکست کھا جاتی ہیں جب عوامی مزاحمت ان کے خلاف ایک اجتماعی قوت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کتاب میں گوریلا فورس کی تنظیمی ساخت پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ٹیبر کے مطابق چھوٹے چھوٹے گروہوں پر مشتمل نیٹ ورک دشمن کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان گروہوں کو ختم کرنا یا ان کی سرگرمیوں کو روکنا ناممکن کے برابر ہو جاتا ہے۔ اسی لیے گوریلا یونٹ اپنی لچک، تیز حرکت اور عوام کے اندر گہرے انضمام کے ذریعے دشمن کے لیے ایک
مستقل دردِ سر بن جاتے ہیں۔ٹیبر کی اس کتاب کو دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں، نوآبادیاتی نظام کے خلاف جنگوں اور آزادی کے متوالوں نے ایک رہنما دستاویز کے طور پر اپنایا۔ ویتنام، کیوبا، لاطینی امریکا اور افریقہ کی تحریکوں میں اس کتاب کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ کسی بھی طاقتور نوآبادیاتی وسامراجی فوجی قوت کو عوامی عزم اور اجتماعی مزاحمت شکست دے سکتی ہے۔رابرٹ ٹیبر کی“وار آف دی فلی”نہ صرف گوریلا جنگ کے عملی اور فکری پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے بنیادی ماخذ ہے بلکہ یہ مظلوم قوموں کے لیے ایک انقلابی منشور بھی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جنگ کا فیصلہ توپ و تفنگ نہیں بلکہ عوامی شعور، استقامت اور قربانی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب آج بھی دنیا کے مقبوضہ خطوں اور آزادی کی تحریکوں کے لیے ایک ناقابلِ فراموش رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
رابرٹ ٹیبر کی شہرہئ آفاق کتاب“وار آف دی فلی”کو گوریلا جنگ کے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب صرف ٹیبر کی ذاتی آراء تک محدود نہیں بلکہ اس میں دنیا کے معروف عسکری ماہرین، انقلابی رہنماؤں اور جنگی سالاروں کے خیالات، تعلیمات، تجربات اور مشاہدات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب گوریلا جنگ کی کلاسیکی تاریخ اور اس کے طرزِ طریقہ کار کا نہایت جامع اور مدلل احاطہ کرتی ہے۔اس کتاب میں سن زو، ماؤ زے تنگ، کاسترو، چی گویرا، جنرل گریواس، جنرل گیاپ اور ہوچی من جیسے عظیم رہنماؤں کے تجربات، مشاہدات اور تجزیات کو پیش کیا گیا ہے۔
چینی فلسفی اور عسکری ماہر سن زو کی تعلیمات گوریلا جنگ کے فکری پس منظر میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کی تصنیف“دی آرٹ آف وار”میں یہ اصول ملتا ہے کہ "اصل جنگ بغیر لڑے جیتنے میں ہے۔” گوریلا جنگ بھی اسی اصول کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ یہ دشمن کو براہِ راست بڑی جنگوں میں الجھانے کی بجائے نفسیاتی طور پر کمزور کرنے اور مسلسل تھکانے پر زور دیتی ہے۔ سن زو کے یہ افکار ٹیبر کے بیان کردہ گوریلا اصولوں کے ساتھ گہرے طور پر جُڑے ہیں۔چین کے انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ کو جدید گوریلا جنگ کا بانی کہا جاتا ہے۔ ماؤ کے مطابق "عوام پانی ہیں اور گوریلا جنگجو مچھلی کی طرح ہیں۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ گوریلا تحریک عوامی حمایت کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ٹیبر نے ماؤ کے اسی نظریے کو بنیاد بنا کر واضح کیا کہ کسی بھی گوریلا جدوجہد کی اصل قوت عوامی شعور اور اجتماعی وابستگی ہے۔
فیڈل کاسترو نے کیوبا میں سامراجی اور آمرانہ نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ اس کا ماڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک چھوٹا گروہ اگر منظم، نظریاتی طور پر مضبوط اور عوامی حمایت سے جڑا ہو تو بڑی ریاستی مشینری کو شکست دے سکتا ہے۔ ٹیبر نے کاسترو کے تجربات کو مثال کے طور پر پیش کیا کہ گوریلا جنگ کیسے ایک مکمل سیاسی انقلاب میں ڈھلتی ہے۔چی گویرا نے گوریلا جنگ کو محض عسکری طریقہ نہیں بلکہ ایک انقلابی جذبہ قرار دیا۔ اس کے نزدیک گوریلا جنگ کا مقصد صرف سیاسی اقتدار نہیں بلکہ ایک نئے سماجی نظام کا قیام ہے۔ چی گویرا کے تجربات خصوصاً بولیویا میں ناکام مہم بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ عوامی حمایت کے بغیر گوریلا جنگ پائیدار نہیں رہ سکتی۔ ٹیبر نے چی گویرا کے ان مشاہدات کو بطور تنبیہ پیش کیا ہے کہ گوریلا جدوجہد کو نظریے اور عوامی اعتماد کے ساتھ جوڑنا لازمی ہے۔
جنرل گریواس نے قبرص میں برطانوی نوآبادیاتی قوت کے خلاف گوریلا طرزِ جنگ کو منظم کیا۔ اس کی مثال اس بات کی دلیل ہے کہ محدود وسائل کے باوجود اگر چھوٹے چھوٹے یونٹس مؤثر حکمت عملی اپنائیں تو سامراجی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ٹیبر نے گریواس کے تجربات کو یورپی پس منظر میں گوریلا جنگ کی کامیاب مثال قرار دیا۔ویتنام کے عظیم کمانڈر جنرل وون گیاپ نے دنیا کو دکھایا کہ گوریلا جنگ کس طرح دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت، یعنی امریکا کو شکست دے سکتی ہے۔ گیاپ نے“پیپلز وار”کے نظریے کو حقیقت میں ڈھالا اور ویتنامی عوام کو ایک ایسی مزاحمتی قوت میں بدل دیا جس نے جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود امریکا کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ٹیبر نے گیاپ کی حکمت عملی کو گوریلا جنگ کی کامیابی کا عملی ماڈل قرار دیا۔ویتنام کے انقلابی رہنما ہو چی من نے گوریلا جنگ کو قومی آزادی کی تحریک کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس کے نزدیک گوریلا جنگ کا مقصد محض عسکری جیت نہیں بلکہ ایک قوم کی بقا، آزادی اور شناخت کا احیاء ہے۔ ٹیبر نے ہو چی من کے سیاسی وژن کو گوریلا جنگ کی اصل روح قرار دیا جو عوامی خودمختاری پر مبنی ہے۔ٹیبر اپنی کتاب میں ان تمام رہنماؤں اور ماہرین کے نظریات کو یکجا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ گوریلا جنگ ایک عالمی اور تاریخی تسلسل رکھتی ہے۔ چاہے وہ، کیوبا، ویتنام یا قبرص ہر جگہ اس کی کامیابی کا راز عوامی حمایت، منظم یونٹس، سیاسی وژن اور دشمن کو بتدریج کمزور کرنے کی حکمت عملی میں پوشیدہ ہے۔
رابرٹ ٹیبر کی کتاب“وار آف دی فلی”گوریلا جنگ کے مطالعے میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں محض گوریلا جنگ کی عمومی حکمت عملی اور اصولوں پر بات نہیں کی گئی بلکہ دنیا کی مختلف گوریلا تحریکوں کامیاب اور ناکام کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہی پہلو اس کتاب کو نہ
صرف نظریاتی بلکہ عملی حوالہ جات کے ساتھ ایک مکمل دستاویز بناتا ہے۔ویتنامی تحریک کو گوریلا جنگ کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جنرل گیاپ اور ہو چی من کی قیادت میں ویت کانگ اور ویت منہ نے جدید ترین عسکری طاقتوں، پہلے فرانسیسی اور پھر امریکی افواج کو شکست دی۔ ان کی کامیابی کے بنیادی عوامل یہ تھے:عوامی حمایت اور قومی آزادی کا جذبہ۔پیپلز وار”کا تصور، جس میں ہر شہری مزاحمت کا حصہ بن گیا۔دشمن کی سپلائی لائن اور نفسیاتی حوصلے پر مسلسل ضربیں۔روایتی جنگ سے اجتناب اور چھوٹے چھوٹے یونٹس کی لچکدار حکمت عملی۔ٹیبر نے ویت نام کو بطور مثال پیش کیا کہ گوریلا جنگ کس طرح طاقت کے توازن کو بدل دیتی ہے۔
فیڈل کاسترو اور چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کی تحریک نے دکھایا کہ ایک چھوٹا سا گروہ، اگر نظریے اور عوامی حمایت سے جڑا ہو، تو بڑی فوجی مشینری کو شکست دے سکتا ہے۔ کیوبا کی کامیابی کے اہم پہلو یہ تھے:نظریاتی وضاحت اور عوامی فلاح پر مبنی سیاسی پروگرام۔چھوٹے چھوٹے کامیاب حملوں سے عوامی اعتماد جیتنا۔پہاڑی اور دیہی علاقوں کو مزاحمت کا مرکز بنانا۔ٹیبر نے کیوبا کی مثال سے یہ نتیجہ نکالا کہ گوریلا جنگ میں عوامی تائید سب سے بڑی قوت ہے۔آئرش ریپبلکن آرمی نے برطانوی تسلط کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی۔ اگرچہ یہ تحریک مکمل کامیابی حاصل نہ کر سکی، مگر اس نے یہ واضح کر دیا کہ شہری اور نیم شہری علاقوں میں بھی گوریلا حکمت عملی مؤثر ہو سکتی ہے۔ IRA کی خصوصیات یہ تھیں:شہری مراکز میں چھاپہ مار کارروائیاں۔محدود مگر پراثر حملے جو سیاسی دباؤ پیدا کرتے۔گوریلا جنگ اور سیاسی مذاکرات؎؎
کے درمیان توازن۔
جنرل گریواس کی قیادت میں قبرص کی تحریک اگرچہ ابتدائی طور پر برطانوی نوآبادیاتی قوت کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب رہی، مگر یہ تحریک پائیدار کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اس کی ناکامی کے اسباب یہ تھے:عوامی سطح پر محدود حمایت۔مقاصد کی نظریاتی وضاحت کا فقدان۔تشدد پر حد سے زیادہ انحصار جس سے عوامی اعتماد کمزور ہوا۔یونان میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد ڈیموکریٹک آرمی نے گوریلا طرز پر مزاحمت کی لیکن یہ تحریک بھی ناکام ہو گئی۔ ناکامی کی بڑی وجوہات یہ تھیں:عوامی حمایت کا فقدان، خاص طور پر شہری آبادی سے لاتعلقی۔بین الاقوامی حمایت نہ ملنا، جبکہ مخالف قوتوں کو مغربی ممالک کی مدد حاصل تھی۔اندرونی اختلافات اور تنظیمی کمزوریاں۔
