
تحریر: گزین بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اس تحریک کی بنیاد سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے شروع ہوتاہے ، نوجوانوں، طلباء اور عوامی سطح پر بیداری نے بھی اسے نئی جہتیں عطا کیں۔ اسی تسلسل میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) اور بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM) کا کردار نہ صرف نمایاں بلکہ تاریخ کے سنہری ابواب میں لکھا جانے کے قابل ہے۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو منظم کرنے اور انہیں اپنے قومی تشخص، زبان، تاریخ اور سرزمین سے روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ بی ایس او نے اپنے نظریاتی کام سے نوجوانوں کے اندر آزادی، خودمختاری اور قومی شعور کی جڑیں مضبوط کیں۔یہ تنظیم محض ایک اسٹوڈنٹس یونین نہیں رہی بلکہ ایک ایسی درسگاہ ثابت ہوئی جہاں نوجوانوں نے سیاسی تربیت پائی، قومی تاریخ کو سمجھا اور سامراجی نظام کے خلاف شعور حاصل کیا۔ بی ایس او نے نوجوانوں میں "وطن سے محبت” اور "قومی شناخت” کا عہد تازہ کیا، جو بعد میں تحریک کے لیے انقلابی بنیادوں میں ڈھل گیا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ نے سیاسی میدان میں ایک واضح نظریہ پیش کیا کہ بلوچ قوم اپنی تاریخی سرزمین پر آزادانہ حیثیت سے جینے کا حق رکھتی ہے۔ بی این ایم نے نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی سفارتی و سیاسی سرگرمیوں سے بلوچ مسئلے کو اجاگر کیا اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔
قوموں کی تاریخ میں ایسے کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو اپنے لہو سے جدوجہد کی راہیں روشن کرتے ہیں۔ آج بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM) کے ایک بہادر سپوت، شہید رسول بخش مینگل کی برسی ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ قومی شعور، مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد سے عبارت تھا۔ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کے ایک ایسے چراغ تھے جس کی روشنی آج بھی جہدکاروں کو راہ دکھا رہی ہے۔شہید رسول بخش مینگل 1970ء کی دہائی میں نواب شاہ، سندھ میں امیر بخش مینگل کے گھر پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا خاندان سندھ سے بلوچستان کے ضلع خضدار منتقل ہوا۔ رسول بخش نے اپنی ابتدائی تعلیم خضدار سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئٹہ (شال) کا رخ کیا۔ شال کی علمی و سیاسی فضا نے ان کے فکر و شعور کو جِلا بخشی اور یہی وہ مقام تھا جہاں انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔بی ایس او کے ذریعے رسول بخش نے نوجوانوں میں قومی شعور بیدار کرنے کی عملی جدوجہد میں حصہ لیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کی، جہاں وہ ضلعی اور مرکزی سطح پر مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی قیادت میں نہ صرف خضدار بلکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی قومی شعور اور مزاحمت کی لہر تیز ہوئی۔
2004ء میں جب شہید غلام محمد بلوچ نے نیشنل پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر کے حقیقی بلوچ نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی تو رسول بخش مینگل نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے غیر پارلیمانی سیاست کا راستہ اپنایا اور اپنی تمام تر توانائیاں بلوچ سرزمین پر ریاستی قبضہ گیری کے خلاف جدوجہد میں صرف کر دیں۔ ان کی سیاست محض اقتدار یا ذاتی مفاد کی سیاست نہ تھی بلکہ وہ اپنی پوری قوت بلوچ وطن کی آزادی اور خودمختاری کے لیے وقف کر چکے تھے۔
31 اگست 2009ء کو رسول بخش مینگل کی جدوجہد کا یہ سفر اس وقت اپنے عروج کو پہنچا جب قابض قوتوں نے انہیں اغوا کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور بالآخر انہیں شہید کر دیا۔ ان کی مسخ شدہ لاش خضدار کے قریب ایک درخت سے لٹکی ہوئی ملی۔ یہ منظر بلوچ قوم کے دلوں پر ایک ایسا زخم چھوڑ گیا جس نے مزید نسلوں کو مزاحمت اور آزادی کے لیے کمر بستہ کر دیا۔
رسول بخش مینگل نے اپنی زندگی اور شہادت کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ آزادی کی جدوجہد میں قربانی ناگزیر ہے۔ وہ اس عزم کے ساتھ میدانِ عمل میں تھے کہ بلوچ سرزمین پر قبضے کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
شہید رسول بخش مینگل کی برسی صرف ایک یادگار دن نہیں بلکہ ایک عہد کی تجدید ہے۔ ان کی زندگی نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ آزادی کا راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ رسول بخش کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک کو مزید توانائی بخشی اور یہ حقیقت ثابت کر دی کہ قربانی دینے والے کبھی مرتے نہیں، وہ اپنی قوم کی روح میں زندہ رہتے ہیں۔
قوموں کی تاریخ میں ایسے کردار ہمیشہ امر ہو جاتے ہیں جو مراعات، دھونس یا خوف کے آگے جھکنے سے انکار کر کے اپنے نظریات کو حیاتِ جاوید بخشتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کے عظیم فرزند شہید رسول بخش انہی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ وہ نہ صرف ایک سیاسی کارکن تھے بلکہ عزم، اصول اور حوصلے کے زندہ استعارہ تھے۔
شہید رسول بخش جب بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کر رہے تھے تو انہیں نیشنل پارٹی کی جانب سے بارہا شمولیت کی پیشکش کی گئی۔ انہیں مراعات، آسائشیں اور سہولتوں کے خواب دکھائے گئے تاکہ وہ اپنی راہ بدل لیں۔ مگر شہید نے ان تمام پیشکشوں کو ٹھکرا کر بی این ایم کے اصولی مؤقف کے ساتھ وفاداری نبھائی۔ یہ انکار ایک قومی عہد کی پاسداری تھ۔ وہ جانتے تھے کہ مراعات وقتی ہیں مگر اصول دائمی، اور تاریخ انہی کو یاد رکھتی ہے جو اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہیں۔
شہید رسول بخش کو بارہا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ بی این ایم کی صفوں سے الگ نہ ہوئے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ کئی مواقع پر انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ اپنی راہ چھوڑ دیں۔ لیکن شہید کے حوصلے بولان و جھالاوان کے پہاڑوں کی طرح بلند تھے۔ ان کے عزم کی پختگی نے نہ صرف ان کے مخالفین کو ناکام بنایا بلکہ ساتھیوں کے حوصلوں کو بھی تقویت بخشی۔ وہ جانتے تھے کہ جدوجہد کے راستے میں مشکلات ناگزیر ہیں، لیکن سر جھکانا جدوجہد کی روح کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔شہید رسول بخش نے بی این ایم کو محض ایک جماعت نہیں بلکہ ایک تحریکی قوت کے طور پر فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ کارکنوں کے لیے رہنما بھی تھے اور ساتھی بھی۔ ان کی بصیرت، تنظیمی صلاحیت اور استقامت نے بی این ایم کو مضبوط بنایا اور اسے بلوچ قومی تحریک میں ایک فعال اور بااثر قوت کے طور پر قائم رکھا۔
شہید سے میری پہلی ملاقات 2007ء میں شال میں ایک نظریاتی ساتھی کے ذریعے ہوئی۔ یہ ایک ایسی ملاقات تھی جس نے میرے دل و دماغ پر گہرا نقش چھوڑا۔ ہم بیٹھے تو بات تحریکِ آزادی اور بلوچ سیاست پر شروع ہوئی اور لمحوں میں یوں محسوس ہوا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ ان کے لہجے کی سچائی اور نظریاتی پختگی نے میرے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر دی۔
وہ تین دن تک میرے ساتھ رہے۔ ان تین دنوں میں شہید نے نہ صرف سیاست و جدوجہد کی باریکیوں پر بات کی بلکہ اپنی مسکراہٹ اور خوش مزاجی سے ماحول کو بھی زندگی بخشی۔ ان کی شخصیت میں ایک عجیب سا سکون اور وقار تھا، جیسے الفاظ اور عمل دونوں کے ذریعے شعور اور حوصلے کا دیا جلانا جانتے ہوں۔ملاقات کے بعد ہمارا رابطہ فون پر رہا۔ یہ رابطہ محض رسمی نہیں تھا بلکہ ہر گفتگو ایک نئے حوصلے، ایک نئی آگہی کا ذریعہ بنتی۔ ایک سال بعد منگچر میں ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ ملاقات بھی پہلے جیسی ہی یادگار رہی۔ ان کا ہنسنا، ان کی مسکراہٹ، ان کی نظریاتی وضاحتیں اور عوامی محبت کا جذبہ آج بھی میری یادوں کا انمول سرمایہ ہے۔شہید کی شخصیت کا سب سے بڑا پہلو یہی تھا کہ وہ جدوجہد کو محض نعرہ یا وقت گزارنے کا عمل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو تحریکِ آزادی کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ان کی گفتگو سے واضح ہوتا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ قربانی کے بغیر آزادی کا خواب ادھورا رہتا ہے۔آج جب میں ان لمحات کو یاد کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وقت وہیں تھم گیا ہو۔ ان کا کردار اور نظریاتی لگن میرے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہی ہے۔ شہید کی یادیں محض ذاتی نہیں، بلکہ قومی ورثہ ہیں، جو ہر بلوچ نوجوان کو اپنی سرزمین کی آزادی اور وقار کے لیے ثابت قدم رہنے کا درس دیتی ہیں۔
شہید غلام محمد بلوچ کی جبری گمشدگی نے نہ صرف ان کی ذات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ ان کے نظریات، عزم اور تحریکِ آزادی سے وابستگی کو مزید پختہ کر دیا۔ جب غلام محمد بلوچ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے، تو یہ واقعہ ان کے لیے ذاتی دکھ اور اذیت ضرور تھا، لیکن انہوں نے اس دکھ کو اپنی طاقت اور جدوجہد کا ذریعہ بنا لیا۔ ان کی جدوجہد کا محور یہ تھا کہ اگر غلام محمد جیسے رہنما کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا سکتا ہے تو عام کارکن اور مظلوم عوام کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہوگا۔ یہی احساس انہیں ہر احتجاج اور مظاہرے کی صفِ اول میں لے آتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ غلامی کے اندھیروں سے نکلنے کے لیے آواز بلند کرنا لازم ہے، چاہے اس آواز کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو۔
خضدار، جو ڈیتھ سکواڈ کا گڑھ تھا، وہاں کے حالات بے حد سنگین اور خطرناک تھے۔ دوست اور ساتھی انہیں مشورہ دیتے کہ وہ روپوش ہو جائیں، تاکہ اپنی جان بچا سکیں اور جدوجہد کو کسی اور انداز میں جاری رکھ سکیں۔ لیکن ان کا جواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا تھا:”موت تو ہر جگہ آئے گی، مگر اگر یہ موت اپنی دھرتی کے لیے ہو تو یہ میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ ہم اس ماں دھرتی کے قرض دار ہیں، اور وطن کے لیے شہید ہونا ہی سب سے بڑا اعزاز ہے۔”یہ الفاظ دراصل ان کی زندگی کی فکری اور عملی جدوجہد کا نچوڑ تھے۔ وہ یہ باور کراتے تھے کہ آزادی کی تحریک میں موت ایک انجام نہیں بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے، ایک ایسا سفر جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر نسلوں کے لیے آزادی کی راہیں روشن کرتا ہے۔
شہید رسول بخش بلوچ قومی تحریک کے اُن بہادر فرزندوں میں سے تھے جنہوں نے ذاتی مفاد، خوف یا دباؤ کے بجائے ہمیشہ اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنے نظریے کو ترجیح دی۔ وہ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے پلیٹ فارم سے ایک ایسے وقت میں سیاست میں سرگرم ہوئے جب قومی جدوجہد کے کارکنوں پر زمین تنگ کی جا رہی تھی۔جب وہ بی این ایم کے پالاری باغ ملیر کراچی کے کونسل سیشن میں مرکزی جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے، تو یہ محض ایک عہدہ نہیں تھا بلکہ ایک بھاری ذمہ داری تھی۔ ان کے انتخاب سے یہ ظاہر ہوا کہ کارکنان انہیں ایک جرات مند، مخلص اور باصلاحیت رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اس انتخاب کے فوراً بعد ہی ریاستی اداروں اور مخالف قوتوں کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھ گیا۔
انہیں متعدد بار دھمکیاں دی گئیں۔ ان کے خاندان کو ہراساں کیا گیا، دوستوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو حراست میں لے کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ رسول بخش کو اپنی راہ سے ہٹایا جائے، وہ اپنے نظریے اور موقف سے دستبردار ہوں اور بی این ایم کی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔ لیکن شہید رسول بخش نے ہر دھمکی کو نظرانداز کیا اور ہر ظلم کو برداشت کیا، مگر اپنی قوم کے ساتھ کیے گئے عہد سے پیچھے نہ ہٹے۔ان کا کردار ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نظریاتی سیاست محض بیانات اور نعرے بازی کا نام نہیں، بلکہ اس کے لیے قربانی، صبر اور پختہ ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول بخش جانتے تھے کہ جدوجہدِ آزادی کی راہ مشکلات سے بھری ہے، لیکن وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر کوئی اپنی دھرتی، اپنی قوم اور اپنے نظریے کے لیے قربانی دینے پر آمادہ نہ ہو تو غلامی کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تاریخ ہمیشہ اُنہی کو یاد رکھتی ہے جو اصولوں پر قائم رہیں، چاہے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
۔ شہید رسول بخش جنہیں 2009 میں اوتھل سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ اس وقت ان کے اہل خانہ نے اپنے پیارے کی جبری گمشدگی کو منظرِ عام پر لانے کے لیے پریس کانفرنس کی اور دنیا کو اس ظلم سے آگاہ کیا۔ انسانی حقوق کے ادارے حرکت میں آئے، لیکن قابض قوتوں کا سفاک نظام کسی اپیل کو خاطر میں نہ لایا۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی ہفتے بعد 31 اگست کو بیلہ کے علاقے سے ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔ شہید کے جسم پر لوہے اور راڈ کے زخموں کے نشانات تھے، جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انہیں شدید جسمانی اور ذہنی اذیتیں دے کر شہید کیا گیا۔
شہید کے جسدِ خاکی کو قومی اعزاز کے ساتھ سپردِ گلزمین کیا گیا۔ وہ مٹی میں دفن ضرور ہوئے، لیکن ان کے نظریات اور ان کی قربانی نے انہیں تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ آج بھی ان کا نام مزاحمت، حوصلے اور آزادی کی علامت ہے۔ ان کا نظریاتی مشن زندہ ہے اور نئی نسلوں کو جدوجہد کا پیغام دیتا ہے کہ قربانیاں ضائع نہیں جاتیں۔یہ سچ ہے کہ جسم مٹ جاتے ہیں مگر فکر کبھی نہیں مرتی۔ شہید کا لہو قوم کی رگوں میں گردش کرتا ہے اور ان کی جدوجہد آنے والی نسلوں کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ ظلم کے ایوان ہمیشہ نہیں رہتے۔ شہید اپنی قربانی سے امر ہو چکے ہیں اور آج بھی اپنی قوم کے لیے ایک عزم اور روشن مثال بنے ہوئے ہیں۔