
کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ 26 ویں روز بھی جاری رہا جبکہ اسلام آباد میں بلوچ خاندانوں کا دھرنا 46 ویں روز میں داخل ہوگیا۔ مظاہرین نے ایک بار پھر اپنے لاپتہ پیاروں کی بحفاظت واپسی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ میں خواتین، بچے اور بزرگ سخت گرمی کے باوجود شریک رہے۔ لاپتہ نوجوان سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بیماری اور ناساز طبیعت کے باوجود احتجاجی کیمپ میں موجود رہیں۔ انہوں نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ ان کا بیٹا بے قصور ہے، اگر اس پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔
زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے کہا کہ ان کے بیٹے کو کسی عدالتی حکم کے بغیر لاپتہ کیا گیا ہے، شہریوں کو عدالتوں کے بجائے غائب کرنا آئین اور انصاف دونوں کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح ماری پور کے علاقے سے لاپتہ ہونے والے دو سگے بھائی شیراز اور سیلان بلوچ کے اہلخانہ نے الزام لگایا کہ انہیں سی ٹی ڈی نے گھر سے اٹھایا، لیکن تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ ان کی والدہ اماں سبزی بلوچ کا کہنا تھا کہ بیٹوں کی گمشدگی نے پورے خاندان کو ذہنی و معاشی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دھرنا 46 ویں روز میں داخل ہوگیا۔ سخت موسم، حکومتی بے حسی اور دباؤ کے باوجود خواتین، بچے اور بزرگ اپنے احتجاج پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی واپسی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔
احتجاجی مظاہرین نے چیف جسٹس پاکستان، وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری نوٹس لے کر لاپتہ نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
