
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
بلوچستان کی سرزمین دہائیوں سے ظلم، جبر اور محرومیوں کا شکار رہی ہے۔ یہاں کے عوام نے ہمیشہ اپنی بقا، شناخت اور آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے، مگر اس جدوجہد کی سب سے توانا اور پرعزم آوازیں ان خواتین کی ہیں جو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا مزاحمت بنی کھڑی ہیں۔ یہ وہ مائیں اور بہنیں ہیں جن کے دامن سے بیٹے اور بھائی چھین لیے گئے، لیکن ان کے حوصلے اور عزم کو چھینا نہیں جا سکا۔ ان کی جدوجہد محض ذاتی دکھ یا خاندان کے کرب تک محدود نہیں رہی، بلکہ ایک پوری قوم کے اجتماعی دکھ اور جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔ انہی بہادر خواتین میں دو نمایاں نام مکہ بی بی اور سیمہ بلوچ ہیں، جن کی داستانِ مزاحمت بلوچستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔
کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سے تعلق رکھنے والی مکہ بی بی ایک عام بلوچ ماں تھیں۔ وہ ایک بیوہ اور چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ 16 اگست 2014 کو پیش آیا، جب ان کے نوجوان بیٹے شاہنواز بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کر لیا گیا۔ شاہنواز کو اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ بابا خیر بخش مری کی قبر پر دعا کے لیے گئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ نہ گھر لوٹے، نہ ہی کسی عدالت میں پیش کیے گئے۔ مکہ بی بی کے لیے یہ حادثہ ایک ذاتی المیہ تھا، لیکن انہوں نے اسے ایک اجتماعی جدوجہد میں بدل دیا۔
ایک سال تک صبر اور انتظار کے بعد مکہ بی بی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے میدان میں اتریں گی۔ انہوں نے کوئٹہ کے ہر احتجاج میں شرکت کی، پولیس کے لاٹھی چارج اور شیلنگ کا سامنا کیا، مگر ہمت نہ ہاری۔ وہ ماما قدیر کے احتجاجی کیمپ میں بھی موجود رہیں اور وہاں دن رات بیٹے کی تصویر ہاتھ میں تھامے انصاف کی پکار لگاتی رہیں۔
2023 میں جب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو مکہ بی بی بھی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ صفِ اول میں شریک تھیں۔ انہوں نے اپنے ننھے نواسے کو گود میں اٹھایا اور آنسو گیس، شیلنگ اور ریاستی تشدد سہتے ہوئے قافلے کے ساتھ چلتی رہیں۔ یہ منظر نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے لیے ایک کربناک یاد دہانی تھا کہ ایک ماں کس حد تک جا سکتی ہے جب اس کا بیٹا اس سے چھین لیا جائے۔
آج 2025 میں بھی مکہ بی بی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ وہ اپنے بیٹے شاہنواز بلوچ کی بازیابی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی رہائی کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ ان کا عزم اور استقامت یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک ماں کی پکار کو طاقت اور جبر کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔
دوسری جانب آواران کی سیمہ بلوچ کی کہانی بھی اسی کرب اور مزاحمت کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں، لیکن حالات نے انہیں احتجاج اور مزاحمت کے راستے پر ڈال دیا۔ 2013 اور 2015 میں ان کے گھر پر ریاستی فورسز نے چھاپے مارے، لیکن اصل صدمہ 4 اکتوبر 2016 کو آیا جب ان کے بھائی شبیر بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
یہ وہ دن تھا جب سیمہ بلوچ نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں رہیں گی۔ انہوں نے گھر کی چار دیواری چھوڑ کر سڑکوں کا رخ کیا۔ کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپوں میں شریک ہوئیں، شہروں سے شہروں کا سفر کیا، اور ماما قدیر کے کیمپ میں سات روزہ بھوک ہڑتال بھی کی۔ ان کی یہ مزاحمت ریاستی جبر کے سامنے ڈٹ جانے کی علامت تھی۔
لیکن اس مزاحمت کا جواب دھمکیوں، گرفتاریوں، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی صورت میں دیا گیا۔ 2021 میں انہوں نے اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ قائم کیا اور ڈی چوک تک مارچ کیا، جہاں بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران انہوں نے اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی، مگر انصاف کے دروازے بند ہی رہے۔
سنہ 2023 میں وہ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی کیمپ میں بھی پیش پیش رہیں اور 2024 میں گوادر میں بلوچ راجی مچی میں اپنی موجودگی سے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں۔
2025 میں بھی سیمہ بلوچ اسلام آباد میں موجود ہیں اور اپنے بھائی شبیر بلوچ کی بازیابی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی رہائی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ ان کی مزاحمت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ بلوچ خواتین محض تماشائی نہیں بلکہ جدوجہد کی سب سے توانا آوازیں ہیں۔
مکہ بی بی اور سیمہ بلوچ کی کہانیاں الگ الگ خاندانوں کی داستان نہیں ہیں، بلکہ پورے بلوچ سماج کے اجتماعی دکھ اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ ان خواتین نے ثابت کیا ہے کہ ظلم کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو، ایک ماں کی ممتا اور ایک بہن کی محبت کبھی شکست نہیں کھا سکتی۔
بلوچ خواتین کی مزاحمت اب تاریخ کا ایک ایسا باب بن چکی ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ جدوجہد نہ صرف ریاستی جبر کے خلاف ہے بلکہ انسانی حقوق، انصاف اور وقار کی جدوجہد ہے۔
بلوچ خواتین کی استقامت ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مزاحمت صرف مردوں کا میدان نہیں بلکہ خواتین بھی ہر محاذ پر اپنے پیاروں اور اپنی زمین کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہیں۔ مکہ بی بی اور سیمہ بلوچ کی کہانیاں آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشنی کا مینار ہیں، جو انہیں یہ سکھائیں گی کہ حق اور انصاف کے لیے آواز بلند کرنا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
