
تحریر: مہراج بلوچ
زرمبش مضمون
زندگی کبھی کبھی ایسے امتحان دیتی ہے جو انسان کے وجود کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ نعیم اور اقبال کی جدائی بھی ایسا ہی ایک لمحہ ہے، جو دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ یہ دونوں محض دوست نہیں تھے، بلکہ اپنے یاروں کے لیے سہارا، خوشی کا باعث، اور محبت کا ایک زندہ حوالہ تھے۔
ان کی یادوں کے چراغ ہمیشہ ہمارے دلوں کو روشن کرتے رہیں گے۔ ان کی مسکراہٹیں، ان کی باتیں، اور ان کا اخلاص ہماری روح کا حصہ بن چکے ہیں۔ شہادت ان کے نصیب میں لکھی گئی تھی، اور یہ نصیب بڑے نصیب والوں کو ہی ملتا ہے۔
آج اگرچہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، لیکن وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول فرمائے اور ہمیں صبر عطا کرے۔
ایسے قریبی دوستوں کو بھولنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ نعیم اور اقبال جیسے دوست صرف یادوں میں ہی نہیں رہتے بلکہ دل کی دھڑکنوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ان کی شہادت نے جدائی کا غم ضرور دیا، مگر ساتھ ہی یہ احساس بھی دیا کہ وہ اپنی جان قربان کر کے ایک روشن مثال چھوڑ گئے۔ شہید کبھی مرتے نہیں؛ وہ اپنی یادوں، اپنے کردار، اور اپنے ایثار کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
بلوچستان کے نوجوانوں کی شہادتیں صرف چند ناموں تک محدود نہیں رہیں، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر یہ قربانیاں دی جا رہی ہیں۔ ہر گھر، ہر گلی، اور ہر قریہ میں کسی نہ کسی ماں کا لختِ جگر، کسی بہن کا سہارا، اور کسی دوست کا ہمسفر چھین لیا جاتا ہے۔
یہ دکھ صرف نعیم اور اقبال تک محدود نہیں، بلکہ بلوچستان کی سرزمین پر روزانہ ایسے ہزاروں نوجوان قربان کیے جا رہے ہیں۔ ہر شہادت ایک چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی دیتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شہادت کے ساتھ کئی دل ٹوٹ جاتے ہیں اور کئی زندگیاں ویران ہو جاتی ہیں۔ بلوچستان کے یہ بیٹے مٹی کے محافظ ہیں، اور ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
غم کل بھی میرا ہمسفر تھا، اور آج بھی ہے۔ دکھ کل بھی دل کو چیر رہا تھا، اور آج بھی ہے۔ وقت گزرتا ہے مگر یہ زخم نہیں بھر پاتے۔ برسوں سے یہ درد میرے ساتھ ہے، اور ہر شہادت اس زخم کو پھر سے تازہ کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نعیم اور اقبال کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کی قربانیاں ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں، ان کے درجات بلند ہوں، اور ان کے گھر والوں کو صبرِ جمیل نصیب ہو۔ آمین۔
شہادت مبارک ہو

