ریاستی ادارے بلوچ نوجوانوں کو محض بلوچ ہونے کی وجہ سے لاپتہ کر رہے ہیں۔ رحیم بلوچ ایڈوکیٹ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سیکرٹری جنرل رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سردار علی محمد قلندرانی کے بیٹے میر یوسف قلندرانی کی جبری گمشدگی کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سردار علی محمد قلندرانی ایک شریف النفس انسان ہیں۔ وہ علاقے کے لوگوں کے قبائلی اور ذاتی تنازعات کو حل کرنے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اور بہت سے دیگر سرداروں کے برعکس، ان کی ایک رحمدل قبائلی رہنما کے طور پر شہرت ہے۔ پچھلے دو دہائیوں سے، ان کے خاندان کو ریاستی ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 18 فروری 2011 کو، فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ان کے گاؤں توٹک کا محاصرہ کر لیا، وہاں کے لوگوں کے گھروں اور ان کی نجی زندگی کی حرمت کو پامال کیا، سردار صاحب کے سالے نعیم، جو میر محمد رحیم قلندرانی کے بیٹے تھے، اور ان کے رشتہ دار یحییٰ، جو عبدالحکیم قلندرانی کے بیٹے تھے، کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا، اور دو درجن سے زائد رشتہ داروں کو اغوا کر لیا، جن میں سردار صاحب کے بزرگ سسر میر محمد رحیم قلندرانی بھی شامل ہیں، اور وہ سب آج تک لاپتہ ہیں۔سردار صاحب کے تین بیٹے، میر عتیق قلندرانی، میر خلیل قلندرانی اور میر وسیم قلندرانی، 2011 سے جبری لاپتہ ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ توتک آپریشن کے بعد، فوج اور شفیق مینگل نے توتک میں ایک نجی غیر قانونی حراستی مرکز قائم کیا جو 2014 میں بند کر دیا گیا۔ اس حراستی مرکز کے بند ہونے کے دو سے تین دن بعد اس علاقے سے بڑے پیمانے پر اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ اب 17 اگست 2025 کو سردار علی محمد قلندرانی کے ایک اور بیٹے، میر یوسف قلندرانی کو کراچی سے ریاستی اداروں نے اغوا کر کے لاپتہ کر دیا ہے۔ اگرچہ ہم سیاسی طور پر مختلف، بلکہ بعض اوقات متضاد راستوں اور مقاصد پر ہیں، کیونکہ سردار علی محمد قلندرانی ماضی میں اسلام آباد نواز جماعت مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرم رہے، اور آج کل وہ اور ان کے اغوا شدہ بیٹے میر یوسف جمیعت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے بیٹے یوسف کو جبری لاپتہ کر دیا گیا۔

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ میر یوسف قلندرانی کی جبری لاپتگی ریاست کی اس بیانیے کو جھوٹا ثابت کرتی ہے کہ وہ لاپتہ ہونے والے افراد کو بلوچ آزادی کے لئے مسلح تنظیموں سے جوڑتے ہیں بلکہ اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قابض پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے بلوچ قوم کے ہر طبقے کو ان کے سیاسی نظریات اور وابستگیوں کی پرواہ کئے بغیر نشانہ بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی شخص جسے ریاستی جبر کا سامنا ہو، جس میں جبری لاپتہ ہونا بھی شامل ہے، ضروری نہیں کہ وہ کسی بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹی یا مسلح تنظیم سے منسلک ہو بلکہ صرف بلوچ ہونا ہی ریاستی جبر کا شکار ہونے کے لئے کافی ہے۔ پاکستان کی اس فاشسٹ پالیسی کو بلوچ نسل کشی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

"وظیفہ نہیں، ڈالر کام کرتا ہے"نوآبادیاتی عدالتوں کا محاکمہ"

اتوار اگست 24 , 2025
تحریر: رامین بلوچزرمبش مضمون گزشتہ دنوں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پاکستانی نوآبادیاتی عدالت میں پیشی کے دوران گل زادی بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:“عسکری عدالتوں میں وظیفے کام نہیں کرتے بلکہ ڈالر کام کرتا ہے۔”یہ مختصر سا تنقیدی جملہ محض ایک احتجاجی ردِعمل نہیں بلکہ ایک مکمل سیاسی، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ