
اسلام آباد: بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں اور جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کے اہلخانہ کا احتجاج آج 34ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔
شدید گرمی اور ممکنہ ریاستی دباؤ کے باوجود مظاہرین اپنے مطالبات پر قائم ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ بی وائی سی کے رہنماؤں کو غیر قانونی حراست سے فوری طور پر رہا کیا جائے اور بلوچستان میں دہائیوں سے جاری جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔
اہلخانہ کا مؤقف ہے کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کو بازیاب اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو رہا کیا جائے۔
دوسری جانب زاہد علی کے اہلخانہ نے پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ قائم کیا ہے جو آج چودہویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ زاہد علی 25 سالہ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ہیں اور یونیورسٹی آف کراچی میں زیرِ تعلیم ہیں۔
زاہد علی کو 17 جولائی 2025 کو پاکستانی فورسز نے جبراً لاپتہ کر دیا، اور ان کی رکشہ بھی ضبط کر لی گئی، جسے وہ جز وقتی طور پر اپنے خاندان کی مدد کے لیے چلا رہے تھے۔
زاہد کے والد، عبد الحمید، جو ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں، اپنی خراب صحت کے باوجود کیمپ میں موجود ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کا بیٹا محفوظ واپس لایا جائے۔
اہلخانہ نے طلبہ، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور عام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کیمپ کا دورہ کریں، مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور زاہد علی کی محفوظ واپسی کا مطالبہ کریں۔

