
اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی غیر قانونی حراست اور جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنا آج اپنے 31ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ریاست انہیں پُرامن احتجاج کا حق نہیں دے رہی۔ پریس کلب کے قریب کل کھولی گئی سڑکیں آج دوبارہ بند کر دی گئیں، جبکہ احتجاجی قافلہ آج پریس کانفرنس کے لیے پریس کلب کے جانب روانہ ہوئی جہاں پولیس نے مظاہرین کو ہرساں اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس حوالے سے سمی دین بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ کل ہمیں دوبارہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کی اجازت دی گئی۔ ہم نے اسے خوش آئند سمجھا اور یہ خیال کیا کہ شاید اب ہمیں مستقل طور پر وہاں پرامن احتجاج جاری رکھنے کا حق دیا جا رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ اجازت محض 14 اگست کی تقریبات کے باعث انتظامیہ کی اپنی مجبوری تھی، کیونکہ اسی راستے سے آزادی منانے والوں کے قافلے کو گزرنا تھا۔ جب ریاست یا انتظامیہ کو اپنی ضرورت ہوتی ہے تو راستے کھول دیے جاتے ہیں، لیکن اگلے ہی دن وہی راستے دوبارہ بند کر دیے جاتے ہیں۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ آج جب لواحقین نے بند راستے کھولنے کا مطالبہ کیا تو پولیس نے طاقت کا استعمال شروع کر دیا۔ مظاہرین کو گالیاں دی گئیں، انہیں نوچا گیا اور زخمی کیا گیا۔ یہ سب صرف اس لئے کہ ہم بلوچستان کے مظلوم لوگ ہیں۔ ہمارے ساتھ جو بھی رویہ اپنایا جائے، جو بھی ظلم کیا جائے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
دوسری جانب کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی کیمپ کو 11 روز مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ احتجاج زاہد علی بلوچ کی بازیابی کے لیے جاری ہے جو 17 جولائی 2025 کو شام 5 بج کر 30 منٹ پر کراچی میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں لاپتا ہوئے تھے۔
لواحقین کے مطابق زاہد کی گمشدگی کو 30 دن گزر چکے ہیں لیکن نہ گرفتاری ظاہر کی گئی اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اہل خانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
دونوں شہروں میں مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا، عدلیہ اور شہریوں سے اپیل کی ہے کہ جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں

