
تحریر: شامیر بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچستان (بشمول ایرانی و افغانی) ایک ایسا خطہ ہے جو پہاڑوں کی طرح بلند کردار، ریگستانوں کی طرح وسیع حوصلہ، اور سمندر کی مانند گہری تہذیب رکھتا ہے۔ یہ ریاست محض ایک نامی خطہ نہیں بلکہ ایک مکمل شناخت، ایک زبان، ایک تاریخ اور ایک غیرت مند قوم کا نام ہے۔ اس زمین پر وفا کی قسمیں کھائی جاتی تھیں، جرگے انصاف کرتے تھے اور قبیلے عزت کے رشتوں میں بندھے ہوتے تھے۔
یہاں صدیوں سے آزادی و خودمختاری کی روایت رہی ہے جو ہر نئے دور میں مختلف تعمیری و تغیراتی پہلوؤں کے ساتھ زندہ رہی ہے۔ یہاں خانِ قلات کی قیادت میں تمام قبائل کی خودداری کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ فیصلے جرگوں میں انصاف کی فراہمی کے ساتھ ہوتے، سرداران قبیلے کے خادم سمجھے جاتے، اور عورت ماں، بہن غیرت کا استعارہ تھی۔
یہ وہ ریاست تھی جہاں بی بی گل جیسی خواتین اپنی رائے سے قبیلے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بلوچ عورت چاہے چراغ روشن کرے یا نسل سنوارے، ہمیشہ ریاست کی روح رہی ہے اور وہ ریاست کی دفاع اور انتظامی معاملات میں پیش پیش رہی ہیں۔
لیکن آج یہ گل زمیں ایک عجیب شورش اور بے یقینی کی کیفیت میں ہے۔ ان سب کے پسِ پردہ ایک نومولود ریاست کی غنڈہ گردی اور ناجائز قبضہ ہے جس کی وجہ سے آج تک یہ خطہ امن و امان اور سماجی، معاشی و اقتصادی ترقی سے محروم ہے۔ قبیلوں میں خالی پن ہے، نوجوانوں کی آنکھوں میں سوالات ہیں جو تسلی بخش جواب کے منتظر ہیں اور سرداروں کی نشستیں خاموش ہیں جو لمہِ وطن کی عظمت کو مزید بے حس کر رہی ہیں۔ وہ ریاست جہاں چراغ روشن ہوا کرتے تھے، اب وہاں ذاتی مفادات کی خاطر اندھیروں میں فیصلے ہوتے ہیں۔
بنیادی وجہ یہ ہے کہ فکری قیادت کا خلا پیدا ہو چکا ہے۔ نوجوان تعلیم سے محروم ہیں اور جنہیں یہ نعمت میسر ہے وہ مستقبل سے غافل ہیں۔ یہاں بزرگ مایوس ہیں اور خواتین خاموش ہیں۔ اب یہاں ایسے ادارے سرے سے نہیں یا تو وہ بدترین تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں جو علم، انصاف اور ترقی کو آگے بڑھا سکیں۔ اس نظام سے مایوس نوجوان راستہ چاہتے ہیں مگر اسکول بند ہیں یا ان پر فوجی قبضہ ہے۔ ماں چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا چرواہے کے بجائے ڈاکٹر یا استاد بنے لیکن افسوس وہ راہ دکھانے والا کوئی نہیں۔
اگر لمہِ وطن کو محفوظ، ترقی یافتہ اور مستقبل میں پرامن بنانا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلا قدم تعلیم ہے جو اس نظریے کو جنم دینے اور اس پر گامزن رہنے میں مددگار ہے، اور اس کے بعد دوسرا اور سب سے اہم قدم اپنے لہو سے اس خوبصورت خطے کی سیرابی ہے جو دورِ حاضر کی ضرورت کے مطابق ہر بلوچ مرد و عورت پر لازم ہو چکا ہے۔
بلوچ نوجوانو، اب اپنے اذہان کشادہ اور روشن کرو کہ تعلیم صرف نوکری یا روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ ہماری فکری آزادی، قومی غیرت، اور ریاستی دفاع و خودمختاری کا ہتھیار ہے۔ اگر تم صرف ڈگری حاصل کر کے تنخواہ کے پیچھے چلو گے، تو تم عنقریب اپنے آباؤ اجداد کی اس عظیم خطے سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔