
اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی ) کی قیادت کی گرفتاریوں، بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں اور عدالتوں سے انصاف کی عدم فراہمی کے خلاف جاری دھرنے کو آج 23 روز مکمل ہو چکے ہیں۔ دھرنے میں شریک مظاہرین جن میں بزرگ خواتین، بچے اور طلباء بھی شامل ہیں، سخت موسم اور انتظامیہ کی رکاوٹوں کے باوجود مسلسل احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دھرنے کے شرکاء کو اب تک کسی مناسب احتجاجی کیمپ کی اجازت نہیں دی گئی۔ نیشنل پریس کلب کی جانب جانے والا راستہ، جو کہ شہری اظہارِ رائے کا ایک عوامی مقام ہے، مظاہرین کے لیے بند کیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے نہ صرف پُرامن اجتماع کے حق سے انکار کیا جا رہا ہے بلکہ مظاہرین کو سایہ یا بیٹھنے کی جگہ جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے متعدد کارکنان اور سیاسی رہنماؤں نے دھرنے کے مقام پر پہنچ کر لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا، تاہم ریاستی رویے میں کسی بہتری کے آثار تاحال نظر نہیں آ رہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بی وائی سی کے تمام گرفتار قائدین کو فوری رہا کیا جائے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ لیکن ان مطالبات کو سنا جانے کے بجائے دھرنے کے شرکاء کے ساتھ ناروا سلوک اور خاموش کروانے کی کوششیں جاری ہیں۔