شال نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ ریکوڈک معاہدے کو منظرءِ عام پر لانے کے لیئے ہائی کورٹ آف بلوچستان کوئٹہ میں ایک آئینی درخواست پارٹی کے جانب سے لگائی گئی تھی جو پچھلے دو سال سے چل رہا تھا۔ کل مورخہ18جنوری2024ء کو بالآخر اعلیٰ عدلیہ نے ریکوڈک معاہدے کو منظرءِ عام پر نہ لانے کے سرکاری موقف کے حمایت کر کے آئینی پٹیشن کو خارج کر دیا۔
انھوں نے کہاہے کہ عدالت وہ مقام ہے جہاں عوام تمام اداروں سے مایوس ہو کر انصاف کے لئے رجوع کرتے ہیں، لیکن جب عدالت ہی بنیادی حقوق سے منحرف فیصلے کرکے قانون کی بالادستی کو ختم کر دے، تو پھر عوام کہاں جائے۔ سابقہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جوادایس خواجہ کا واضح حکم نامہ 2013ء کا موجود ہے کہ عوام کے ٹیکس سے کیئے گئے معاہدات کو خفیہ نہیں رکھا جاسکتا، جب کہ ریکوڈک معاہدے میں پچیس فیصد حصص بلوچستان کے عوام کے دیئے گئے ٹیکس کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم نامے نے ریکوڈک معاہدے کو منظرءِ عام پر نہ لانے کے فیصلے نے بلوچ قوم میں پہلے سے موجود مایوسی میں شدید اضافہ پیدا کر دیا ہے اور نو آبادیاتی پالیسی جوازل سے نافذ العمل ہے آج عدلیہ کے موجودہ فیصلے نے باقائدہ اُن نو آبادیاتی رویوں کو قانونی تحفظ فراہم کر کے بلوچ کے استحصال میں اپنا شراکت داری کا باالواسطہ اِعلان کر دیا ہے۔
اور پارٹی عنقریب ریکوڈک سمیت تمام معاہدوں کو منظرءِ عام پر لانے کے لیے اپنی سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کرے گی۔