شہید غلام محمد بلوچ: جدوجہد، قربانی اور بلوچ سیاست کی نئی جہت!

تحریر جمال بلوچ
زرمبش اردو

بلوچ وطن وہ سرزمین ہے جس نے تاریخ کے ہر موڑ پر اپنے بطن سے ایسے فرزند پیدا کیے جو قوم کے شعور، حریت اور مزاحمت کا استعارہ بنے۔ انہی میں ایک درخشاں نام شہید غلام محمد بلوچ کا ہے، جنہوں نے نہ صرف بلوچ قومی تحریک کی سمت متعین کی بلکہ سیاسی بصیرت، عوامی شعور اور تنظیمی تربیت کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔

بلوچ قومی تحریک کی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں، آسائشیں اور حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی قومی آزادی اور شعور کی بیداری کے لیے قربان کیں۔ ان ہی عظیم کرداروں میں شہید غلام محمد بلوچ ایک درخشاں ستارہ ہیں، جن کی جدوجہد، سیاسی شعور، اور عوامی وابستگی نے بلوچ قوم کو نہ صرف ایک مؤثر سیاسی پلیٹ فارم عطا کیا بلکہ غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔

شہید غلام محمد کی سیاسی زندگی اس وقت کے بلوچ سماج میں ایک نئے سیاسی فکر اور تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد بنی۔ انہوں نے اس وقت سیاسی عمل کا راستہ چُنا جب بلوچ سیاست قبائلی، شخصی اور موقع پرستانہ رویوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ وہ ایک کارکن سے ایک رہنماء بنے، مگر ان کی قیادت کا انداز روایت شکن تھا۔ وہ اقتدار یا ذاتی مفاد کی بجائے اصولوں کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔
شہید غلام محمد کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ انہوں نے سیاسی عمل کو ایک ادارہ جاتی شکل دی۔ بلوچ نیشنل موؤمنٹ (BNM) جیسے پلیٹ فارم کی تشکیل ان کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک ایسی ماس پارٹی تھی جو نہ صرف بلوچ نوجوانوں کے لیے سیاسی تربیت کا ذریعہ بنی بلکہ قوم کے ہر طبقے کو ایک نظریاتی محور کے گرد جمع کرنے میں کامیاب رہی۔

شہید غلام محمد کا راستہ آسان نہیں تھا۔ انہیں نہ صرف ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اپنی ہی قوم کے اندر موجود مفاد پرست عناصر کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر انہوں نے ہر طرح کی مزاحمت کے باوجود اپنی راہ نہ بدلی، کیونکہ ان کا یقین بلوچ قوم کی آزادی، خودمختاری اور شعور کی بیداری پر تھا۔ ان کی شہادت نے بلوچ تحریک کو ایک نیا حوصلہ اور جہت عطا کی،

شہید غلام محمد بلوچ یکم جنوری 1959 کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند میں پیدا ہوئے، جو گولڈ اسمتھ لائن کی خونی سرحد کے قریب واقع ہے۔ ان کے والد نے ابتدا میں ان کا نام میر نصیر خان نوری کے کردار سے متاثر ہو کر "میر نصیر خان” رکھا، تاہم بعد میں ان کا نام غلام محمد رکھا گیا۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی اور بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ طالب علمی کے دوران ہی وہ بلوچ قومی سیاست سے جُڑ گئے۔ محض دس سال کی عمر میں وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے یونٹ سیکریٹری منتخب ہوئے، جو ان کے سیاسی شعور اور قیادت کی اولین جھلک تھی۔

غلام محمد بلوچ نے BSO کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں میں شعور بیدار کیا، بلوچ شناخت کی بازیافت کی بات کی اور ریاستی جبر و غلامی کے خلاف مزاحمت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ ان کے دورِ قیادت میں BSO بلوچستان اور کراچی میں متحرک ہوئی۔ جب فدا بلوچ BSO کے چیئرمین تھے، شہید غلام محمد بلوچ جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے، اور دونوں نے مل کر تنظیم کو نئی جہت دی۔

تاہم، تنظیمی کامیابیاں ریاستی عناصر اور پارلیمانی گماشتوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھیں۔ انہوں نے فدا بلوچ کو شہید کئے۔ جن میں مالک جالب کہور خان اور رازق بگٹی ملوٹ تھیں ۔فدا بلوچ کی شہادت کے بعد BSO دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی، اور ریاستی پشت پناہی سے کچھ کاسہ لیسوں نے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن غلام محمد بلوچ جیسے نظریاتی قائدین نے ان سازشوں کو ناکام بنایا۔

بی ایس او سے فراغت کے بعد شہید غلام محمد بلوچ نے بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM) میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2004 میں جب ریاست نواز عناصر نے BNM کو تقسیم کر کے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی، تو شہید غلام محمد نے اس انضمام کی شدید مخالفت کی اور اپنے مشہور تحریری مضمون سقوطِ بولان کے ذریعے ان کرداروں کو بے نقاب کیا
اسی سال، انہوں نے اپنے ہم خیال ساتھیوں لالا منیر، میر قادر بلوچ، شہید رحمت اللہ شوہاز، کامریڈ مولاداد اور قاضی ریحان کے ہمراہ ایک نئی جماعت "بلوچ نیشنل موومنٹ” کی بنیاد رکھی۔ 2004 میں شال (کوئٹہ) میں منعقدہ کونسل سیشن میں غلام محمد بلوچ کو BNM کا پہلا چیئرمین منتخب کیا گیا، جب کہ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔

بی این ایم کا قیام نہ صرف ایک سیاسی جماعت کی بنیاد تھا، بلکہ یہ بلوچ قومی مزاحمت کے نئے دور کا آغاز بھی تھا۔ اس جماعت نے بیرونِ ملک بلوچوں کو بھی ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا، اور ایک بین الاقوامی بیانیہ تشکیل دیا۔
شہید غلام محمد بلوچ کو ریاستی قوتوں کی طرف سے متعدد بار گرفتار کیا گیا، لیکن ان کے حوصلے کبھی پست نہ ہوئے۔ ان کی جدوجہد محض جلسے، جلوس یا تحریر و تقریر تک محدود نہ تھی، بلکہ انہوں نے عملی میدان میں تنظیمی، فکری اور عوامی سطح پر تحریک کو جلا بخشی۔ ان کی شہادت ایک جسم کا خاتمہ ضرور تھی، مگر ان کا نظریہ آج بھی ہر بلوچ نوجوان کے دل میں زندہ ہے۔
شہید غلام محمد بلوچ کے بعد بلوچ سیاست ایک نئے چیلنج سے دوچار ہوئی۔ قیادت کا خلا، ریاستی جبر، داخلی انتشار اور عالمی بے حسی جیسے عوامل نے تحریک کو دھچکا پہنچایا۔ تاہم، ان کی قائم کردہ تنظیمی بنیادیں اور سیاسی نظریات اب بھی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
موجودہ حالات میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تنظیمی اتحاد، نظریاتی پختگی اور عوامی رابطے کو فروغ دیں۔ شہید غلام محمد بلوچ نے جن اداروں کی بنیاد رکھی، ان کو مضبوط کرنا، اور ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بنانا، اب ہر باشعور بلوچ کا فرض ہے۔

شہید غلام محمد بلوچ ایک فرد نہیں، ایک عہد، ایک نظریہ اور ایک روشن تاریخ کا نام ہے۔ ان کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حقیقی قیادت وہی ہوتی ہے جو قوم کے لیے جیتی ہے، اور جو اپنی شہادت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ ہو یا BSO، ہر پلیٹ فارم پر ان کی جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قوموں کی تقدیر قربانیوں سے لکھی جاتی ہے، اور ان کا تحفظ تنظیم، نظریہ اور عمل سے ممکن ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے راستے کو اپنائیں، ان کے فکر کو زندہ رکھیں، اور ان کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

شہید غلام محمد: فکر، قربانی ، قومی آزادی کی معمار

جمعرات اپریل 10 , 2025
تحریر: رامین بلوچزرمبش اردو 8اور 9 اپریل کی درمیانی شب صرف شہید غلام محمد اور ان کے شہید رفقاء کی یاد گاری برسی کا دن نہیں، بلکہ بلوچ قومی شعور کی وہ خونی لکیر ہے جو سنگلاخ زمین پر بھی مزاحمت کا نقش بن کر ابھری۔ یہ رات ایک المناک […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ