مہردات : تحریر: مہرہس بلوچ : تیسری قسط

صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد مہردات نے یونیورسٹی کی راہ لی۔ یونیورسٹی ان کے گھر سے پیدل پندرہ منٹ کے فاصلے پہ تھا ۔ یونیورسٹی پہنچا تو حمل گارڈن کینٹین پہ ملا۔ سلام دعا ہوئی ، حمل نے کہا کہ یار ابھی پندرہ منٹ باقی ہے، چاہے پیوگے؟ نہیں ابھی گھر سے ناشتہ کرکے آرہا ہو، مہردات نے کہا۔ دونوں کچھ دیر یوں ہی ادھر کی باتیں کرتے رہے اس دوران نودبندگ بھی پہنچ گیا۔ ازاں بعد تینوں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب چل پڑے۔ آج کا دن کچھ اچھا ہی گزرا۔ کیوں کہ تین مضامین پہ انہیں لیکچر سننے کا موقع ملا۔ کلاسز ختم ہونے کے بعد تینوں دوست کینٹین کی جانب چل پڑے۔

حمل نے کہا کہ نودبندگ کل تم کہہ رہے تھے کہ تمہیں حالیہ حالات کے بارے میں جانکاری حاصل ہے، کیا تم ہمیں بتا سکتے ہو کہ بلوچستان میں آج کل یہ کیا چل رہا ہے۔ نودبندگ نے دونوں کو دیکھا، پھر کہ کہا کہ آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ مہردات نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یار یہ تو سب جانتے ہیں کہ آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس سے قبل بھی بلوچوں نے مزاحمت کی ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ آیا آزادی کی تحریکوں میں ریاستی فورسز تعلیمی اداروں، پبلک ایریاز، حتیٰ کہ ہسپتالوں کو بھی چھاﺅنی بنالیتے ہیں۔

آخر یہ کیسی تحریک ہے کہ ریاستی لشکر اسے کاﺅنٹر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں یا اس قسم کی دوسری جگہوں کو مورچہ بنانے میں مصروف ہے۔ کیا جنگیں اس قسم کی حرکتوں سے ختم ہوتی ہیں۔۔۔ کچھ عجیب ہے نا؟ حمل اور نودبندگ دونوں حیران و ششدر مہردات کی طرف دیکھ رہے تھے۔ نودبندگ نے کہا کہ یار مہردات تم ایک سیاسی رہنما کی طرح باتیں کررہے ہو۔ کیا سیاسی اداروں سے تمہارا تعلق ہے، ویسے جہاں تک میں جانتا ہوں تم نے کالج میں بھی کسی تنظیم میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ اس قسم کی باتیں کہا سے سیکھی ہے یار؟ مہردات نے کہا کہ دیکھو! ہم سب اسی سماج میں رہے ہیں اور سماج میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے وہ سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ میں نے بس فقط وہی بیان کیا جو میں نے دیکھا، سنا اور محسوس کیا۔ حمل نے پھر نودبندگ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تونودبندگ نے کہا کہ مہردات نے جتنی باتیں کیں اس سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا۔ البتہ یہ سنا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حالیہ تحریکِ آزادی گزشتہ ادوار میں چلنے والی تحریکوں سے مختلف ہے۔ حمل نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ ماضی میں قیادت کرنے والے فقط سردار یا قبائلی لوگ ہی تھے جبکہ آج غلام محمد ، ڈاکٹر اللہ نظر اورواحد کمبر جیسے سیاسی اداروں سے وابستہ لوگ بھی رہنمائی کررہے ہیں۔ جو قبائلی حوالے سے کوئی خاص شناخت بھی نہیں رکھتے اور نہ ان کے ہاں دولت کی گنگا بہتی ہے۔ مہردات نے دخل اندازی کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارے سماج میں اشرافیہ کے بنا کوئی اور رہنما بن جائے اور وہ بھی جنگی ماحول میں؟ کیوں کہ ماضی میں تو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حمل نے مہرداد کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو تین ہی نام سنے ہیں اور آج بھی وہی نام سن رہے ہیں یعنی عطااللہ مینگل، خیربخش مری اور اکبر خان بگٹی جو تین سال قبل شہید ہوگیا۔ گزشتہ ادوار میں بزنجو کابڑا نا م تھا لیکن دیکھا جائے تو وہ بھی سردار ہی تھا اور اگر والد کے مرنے کے وقت وہ جوان ہوتا تو اسی وقت قبیلے کی دستار اسی کے سرجتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اسی طبقے نے رہنمائی کی ہے اور جب تھک ہارگئے تو تحریک زمین بوس۔۔۔۔۔ ایسے میں کامیابی کیسے ممکن ہے۔؟ مہردات نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ دوسری، بات ہمارا جو سماجی ڈھانچہ ہے کیا اس میں یہ ممکن بھی ہے کہ ایسے لوگ رہنمائی کریں جن کی علاقائی یا قبائلی شناخت ہی نہ ہو۔؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تصور تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت کا روپ اختیار کرلے، یہ ممکن ہی نہیں۔ نودبندگ نے کہا کہ ممکن ہے کہ جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو، یہی سچ ہو۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ ہر سماج ارتقائی عمل سے گزرتا ہے اور ہمارا سماج بھی آج ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ارتقائی عمل میں ہمارا سماج بھی جدیدیت کی جانب مائل ہوگا۔۔۔ یہی قانون ِ فطرت ہے۔۔۔ پھر سردار اور عوام کی تفریق ختم ہوگی۔۔۔ البتہ یہ ممکنات میں سے ہے کہ اس میں زیادہ وقت لگ جائے۔۔۔ وقت سے یاد آیا اور اگر ہم جیسے لوگ بھی اس عمل میں اپنی خدمات پیش کریں تو ممکن ہے کہ تبدیلی کی ارتقا کی رفتار کچھ تیز ہوجائے۔ اور اگر ہم یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے یا بس کہیں محفل سجائے چار باتیں کریں گے تو اس سے روشن مستقبل اس خواب کی مانند ہوگا جس کی کوئی تعبیر نہیں۔

مہردات نے کہا کہ یار سوچنے والی بات ہے کہ اس سماج میں ہم جیسے لوگ کیا کرسکتے ہیں۔۔۔ اور ویسے بھی میری ذاتی رائے یہی ہے کہ ایک ایٹمی طاقت، جس کی فوج دنیا کے بہترین افواج میں سے ایک ہو، اس کے خلاف لڑنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ذرا سوچیے! جب آغا عبدالکریم کو شکست ہوئی تو اس وقت یہ ملک نیا نیا وجود میں آیا تھا، ازاں بعد سترکی دہائی جہاں یہ ملک دوٹکڑے ہوگیا تھا وہ سیاسی اور معاشی انتشار کا شکار تھا۔۔۔ جب اس وقت ہمیں کامیابی نہیں حاصل نہیں ہوئی تو آج جب یہ ایٹمی طاقت بن چکا ہے، ہم کیسے اور کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں تو یہی سمجھتاہوں کہ اس جنگ کو ختم ہوناچاہیے، اس میں نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ حمل نے مہردات کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جانب کلاشنکوف ہو ااور دوسری جانب لڑاکا طیارے، ٹینک و توپ۔ اور پھر بھی فتح کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ احمقانہ پن کی انتہا ہے۔ نودبندگ نے کہا کہ میں نہیں جانتا لیکن آزادی کی تحریکوں کے حوالے سے دو چار کتابیں میں نے پڑھی ہے، جن میں یہی لکھا ہے کہ فتح ان کی ہوتی ہے جو اپنی کھوئی ہوئی آزادی کے لیے اصولی جدوجہد پہ عمل پیرا ہوں۔ مہردات نے کہا کہ چلو آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ویسے میں سمجھتاہوں کہ یہ خشک موضوع ہے جو ہمارے پلے پڑنے والا نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس پہ بات ہی نہ کریں۔ حمل نے کہا کہ یار موضوع تو خشک ہے لیکن بات تو ہوگی۔ کیوں کہ جہاں کہیں بھی جاﺅ لوگوں کو اسی موضوع پہ بات کرتے سنو گے۔ نودبندگ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ہمارا تو گھر ہی بسا اوقات آزادی کا اکھاڑا بن جاتا ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

زہری سے جبری لاپتہ عبدالحفیظ کے بیٹے کی قرآن پاک ہاتھ میں اٹھائے والد کے بازیابی کی اپیل

منگل فروری 18 , 2025
خضدار ( ویب ڈیسک ) زید بن عبدالحفیظ ہارونزئی زھری ساکن سموانی تحصیل زھری ضلع خضدار بلوچستان  قرآن مجید ہاتھ میں تھامے ہوئے  اپنے چھوٹے بہنوں کے ساتھ  والد کے رہائی کے لیے قرآن کا واسطہ دے کر سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں اپیل کر رہے ہیں ۔ ان […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ