
بلوچستان قدرتی طور پر ایک امیر اور زرخیز معدنی خطہ ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ”بلوچستان“ دنیا کے اہم ترین اورقیمتی دھاتوں کا سرزمین ہے، ان معدنی خزائن میں ایک بلوچستان کے جنوب مغربی علاقہ چاغی میں ”ریکوڈک“کے نام سے موجود ہے۔ جو نوکنڈی سے تقریبا ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بلوچی زبان میں ”ریکوڈک“ کا مطلب ریت سے بھری ٹیلہ یا چوٹی کی ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق اس کے ذخائر) Tethyan Mettalogenic Belt (کا حصہ ہے۔ ٹھیتیان جوسونے اور تانبے جیسے معدنیات سے مالامال ایک ارضیاتی زون ہے۔ جو لاکھوں سال پہلے جنوب مغربی ایشیااور یوریشیئن پلیٹ کے ٹکراؤ سے بناتھا۔یہ ارضیاتی زون یورپ مشرق وسطی،جنوبی مشرقی ایشیاء،جنوب مغربی ایشیاء(بلوچستان) اور وسط ایشیا کے سنگم تک پھیلاہواہے۔
بلوچستان کے ریکوڈک جیسے علاقہ اسی زون کا حصہ ہے۔ جیولوجیکل سٹڈی کے مطابق کسی زمانے میں یہاں آتش فشانی پہاڑ موجود تھے۔آتش فشانی پہاڑ ایسی پہاڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جو زمین کے اندر موجود پگھلے ہوئے مادے، لاوا (Megma)گرم گیسوں اور راکھ کو زمین کی سطح پر خارج کرتی ہے، جس سے یہ عمل نئی چٹانوں اور معدنی ذخائر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آتش فشان پہاڑ جیوتھرمل توانائی اور قیمتی معدنیات کے حصول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیولوجیکل ماہرین کا کہناہے کہ، آتش فشانی
سر گرمیوں کے دوران ان پہاڑوں میں مختلف قیمتی معدنیات زمین کے گہرائی سے زمین کے سطح کے قریب آجاتی ہیں۔
ان معدنیات میں سونا،چاندی، تانبا،،،زنک، لوہا، پلاٹینم، گندھک سلفر اوردیگر قیمتی جواہرات ہیرا اور اوپال شامل ہیں۔
”ریکوڈک“ سیندھک کی طرح بلوچستان کے سب سے قیمتی معدنیاتی اثاثوں پر مشتمل سونے اور تانبے کے ذخائرکے مقدار کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑے سونے کی کان ہے۔ ایک سروے کے مطابق ”ریکوڈک“ میں موجودہ وسائل کا تخمینہ 12.3ملین ٹن تانبہ اور 20.9ملین اونس سونے کے ذخائر پر مشتمل ہے۔ جو پچاس سال سے زائد عرصہ تک سالانہ کم از کم بیس لاکھ ٹن تانبہ اورپچیس لاکھ اونس سونا پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
اس سچ سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ بلوچستان تاریخی اور زمینی طور پر ایک متنازعہ اور حساس خطہ ہے۔جس کا 1948 میں برطانوی پشت پنائی سے پاکستان کا ساتھ بلجبر الحاق کیا گیا۔ اور الحاق کے وقت سے تادم موجود بلوچستان میں قومی آذادی کی جدوجہد جاری ہے۔ جسے پاکستان علیحدگی کی تحریک قرار دیتی ہے،لیکن اس کے برعکس سے زیادہ یہ مکمل آزادی کی جدوجہد ہے کیونکہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں رہا،بلکہ غیر فطری ریاست کی تشکیل سے قبل بلوچستان ایک مملکت کے طور پر وجود رکھتا تھا۔ اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچ قومی مسئلہ محض علاقائی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک حساس اور سنگین معاملے کے طور پر ابھر چکا ہے۔
لیکن با وجود اس”متنازعہ حیثیت“ کے پاکستانی ریاست اسے اپنا اکائی قرار ار دے کر نہ صرف اس کے قدرتی وسائل کو لوٹ کر پنجاپ کی معاشی انجن کو ایندھن دے رہاہے ۔بلکہ مستقل کشیدگی کے باعث بننے والی بلوچ سرزمین کے وسائل کے حوالہ سے مختلف ساہوکار سامراجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر بلوچ مرضی و منشاء کو خاطر میں لائے بغیر معائدات کرتے ہوئے بلوچ وسائل کی حق ملکیت کے بیانیہ کونظر
انداز کررہاہے
۔ بلکہ معدنیات سے لدے ٹرکوں پر متواتر عسکری حملوں کے باوجود بلوچ وسائل اور دولت کو مفت کا مال سمجھ کر جس پیمانے کی لوٹ مار کی جارہی ہے۔اور ان استحصالی منصوبوں کو نام نہاد ترقی کانام دیکر بلوچ قوم کا معاشی استحصال کررہاہے۔ جس کی واضح مثال چاغی میں واقع ریکوڈک اور سیندھک کے علاقہ میں مقامی آبادی ہے۔ جوقیمتی معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پتھر کی زمانہ میں رہتے ہیں۔ قدرتی وسائل کی بھرمار ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ زندگی کے ہرقسم کے سہولیات سے محروم ہے۔ ان وسائل سے حاصل ہونے والا منافع ایک طرف پاکستانی ریاست اور دوسری طرف عالمی استحصالی قوتوں کے جیبوں میں جاتاہے۔ یہ علاقہ عرب بادشاہوں کے لئے شکار گاہ اور عالمی سرمایہ کاروں کے لئے سونے کے کانکنی کا مرکز ہے لیکن یہ یہاں کے مقامی لوگوں کا معاشی قبرستان بن چکاہے۔اس لوٹ مار کی قیمت مقامی آبادی اپنی غربت، غلامی اور بدحالی کی زندگی سے ادا کررہے ہیں۔
اس کا اندازہ آغا محمدحسنی کے گفتگو سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ، جو دالبندین تاجر ایسوسی ایشن کے سابق صدراور معروف مقامی کاروباری گروپ ہے۔”ان کا کہناہے کہ یہ کمپنیاں مقامی سطح پر خریداری نہیں کرتے۔ وہ زیادہ تر اپنی مصنوعات،اشیابشمول خورد ونوش کراچی سے در آمد کرتے ہیں۔ تو پھر یہ یہاں کی معیشت میں کس طرح کردار ادا کریں گے“۔
جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ استحصالی معائدات بلوچ وسائل کے لوٹ مار کا تسلسل ہے جن کی مقامی معیشت یا ترقی میں کوئی کردار نہیں۔
”ریکوڈک“کے حوالہ سے 1993سے لے کر اب تک بلوچستان کے مختلف کٹھ پتلی حکومتوں اور پاکستانی امپرلسٹ نے مختلف ادوار میں سامراجی عزائم رکھنے والے متعددبین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ معائدات کرچکے ہیں، اور بلوچ مرضی و منشاء اور فائدہ کو خاطر میں لائے بغیر انہیں کان کنی اور سرمایہ کاری کے لے نہ صرف کھلی چھوٹ دی ہے۔ بلکہ ان کو تحفظ کویقینی بنانے کے لے انہیں سیکورٹی بھی فرائم کی گئی ہے۔
ریکوڈک منصوبہ کے حوالہ سے سب سے پہلے 1993میں ایک آسٹریلوی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز(BHPM)کے ساتھ پاکستانی ریاست ایک مشترکہ منصوبہ کی بنیاد پر چاغی میں معدنیات کے تلاش کے حوالہ سے ایک معائدہ پر دستخط کئے تھے۔ یہ معائدہ25/75شیئر کے فارمولے پر مبنی تھا۔ جس میں تین حصہ کمپنی اور ایک حصہ بلوچستان کے کٹھ پتلی حکومت کا حصہ تھا۔جس کے لئے کمپنی کو کم از کم 24000ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ دیا گیا۔ تاکہ وہ اس وسیع رقبہ پر معدنیات کی تلاش جاری رکھ سکے۔ معائدے کے مطابق کمپنی کو یہ حق دیاگیا، کہ اگر وہ چائے تو اپنا حصہ دوسرے کمپنیوں کو فروخت یا منتقل کرسکتی ہے۔ جس کے مطابق آسٹریلوی کمپنی نے اسے سن2002 میں (TETHYAN Copper Company)ٹی سی سی کا حوالہ کردیا۔ٹھیتیان کمپنی کو جب یہاں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر ملے۔ تو اس سے کمپنی کے حصص کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگے۔ تو اس کمپنی نے اپنی حصص مختلف شیئر ہولڈرکاپر اور گولڈ کمپنیوں کو اوپن مارکیٹ میں بیچنے کے لئے پیش کئے۔۔جس میں ایک چلی کی کمپنی Antofagastaاور ایک کینڈین کمپنیBarrick Gold نے مشترکہ اور یکساں طور پر TCCکا سو فیصد حصہ خرید لیا۔بتایا جاتاہے کہ ٹی ٹی سی نے یہاں چارسو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔
فروری2011کو TCC کمپنی نے مائننگ لائنس کے لئے کٹھ پتلی حکومت بلوچستان اسلم رہیسانی کو درخواست دی جسے مسترد کردیا گیا۔ جس کی وجہ یہ نہیں تھی،کہ اسلم رہیسانی بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار بننا نہیں چاہتا تھا۔بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ ٹھیتیان کمپنی ریکوڈک کے ذخائر کا رپورٹ بناکر پاکستانی سٹبلشمنٹ اور کٹھ پتلی بلوچستان حکومت کو پیش کیا کہ یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا ایک بہت بڑا سونے اور تانبا کا ذخیرہ ہے۔اس مقام پر اتنا سونا اور تانبہ موجود ہے جسے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک متواتر نکالا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ کے بعدکٹھ پتلی وزیر اعلی بلوچستان اسلم رہیسانی،چیف جسٹس افتخار چوہدری، اس وقت کے وزیر معدنیات اور سیکریٹری خزانہ مشتاق رہیسانی کو جب اس منصوبہ میں سینکڑوں کھربوں کی مالیت کی معدنیات کا علم ہوتاہے، تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ تو وہ درپردہ مشترکہ طور پر اپنی نمائندہ کے طور پر مشتاق رہیسانی کو اس منصوبہ سے اپنے اپنے شیئرز نکالنے کے لئے منصوبہ بندی اور ڈیل کی ہدایت کرتے ہیں۔جس کے بعد مشتاق رہیسانی ٹھیتیان کمپنی کو اپروچ کرتاہے، اور ان سے کھربوں روپیہ کی شیئرز کی مطالبہ کرتاہے۔
ٹھیتیان کمپنی مناسب حد تک(کک بیکس) رشوت دینے کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ لیکن کھربوں روپیہ ایڈوانس شیئرز ہولڈنگ کے لے کسی بھی طور پر آمادہ نہیں ہوتا۔مشتاق رہیسانی جو فرنٹ مین کے طور ٹھیتیان کمپنی سے ڈیل کرنے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان کے مابین حتمی طور پر”لو اور دو“ کے مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں۔جس کو بنیاد بناکر اسلم رہیسانی حکومت اس معائدہ پر ردعمل دیتے ہوئے اسے کٹھ پتلی اسمبلی کے زریعہ منسوخ قرار دیتاہے۔ اور دوسری جانب در پردہ شیئرز نہ ملنے کی وجہ سے افتخار چوہدری چیف جسٹس کے حیثیت سے ٹھیتیان کمپنی سے کئے گئے معائدہ کے خلاف عدالتی طریقہ کار کوبروئے کار لاتے ہوئے اسے کلعدم قراردیتاہے۔
جس کی نتیجہ میں (Tethyan copper compnay) اورمتزکرہ دو مشترکہ شیئر ہولڈر کمپنیوں کے ساتھ مل کر”چاغی ہل جوائنٹ ایگریمنٹ“کے خلاف ورزی کے بناء پر پاکستان کے خلاف انٹر نیشنل چیمبر آف کامرس میں مقدمہ دائر کرتاہے۔ اور یہ مقدمہ کئی سالوں کے سماعت اور پیشیوں کے مرحلے سے گزر کر 8 سال کے بعد عالمی بینک میں قائم بین الاقوامی ثالثی فورم intranational center for sattalment a off investment Disputs (ایکسڈ)نے2019 میں فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کے خلاف 6بلین ڈالر سے زائد کا بھاری جرمانہ عائد کرتاہے اس صورت میں پاکستانی ریاست بیرگ گولڈ سے کیس ہارنے،بھاری جرمانہ کی ادائیگی کی بوجھ اور بلوچ وسائل کے لوٹ مار سے ملنے والے اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کمپنی کو منت سماجت کرکے بالآخر2022 میں Barrick Gold کے ساتھ ایک دفعہ معائدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔اور بلوچ وسائل کے لوٹ مار پر مبنی استحصالی عمل کو تقویت دینے کے لئے ریکوڈک کو چالیس تک کے لے سرمایہ کاری اور کان کنی کے لئے مزکورہ کمپنی کو لیز پر دیتاہے۔ جس میں 75فیصد کمپنی اور25فیصد پاکستانی سٹبلشمنٹ کے شیئرز پر معائدے طے کئے جاتے ہیں اور بلوچستان ایک فیصد شیئر کا حقدار نہیں ہوتا۔
یہ تحریر”بیرک گولڈ“کے سی ای او کے انٹریو کے بڑھک بازی کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ جس میں وہ گزشتہ ہفتہ لندن میں ”ریسورسنگ ٹومارو“2024میں خطاب کرتے ہوئے مضحکہ خیز اور زمینی حقائق سے ماورا دعوی کرتے ہوئے کہتاہے کہ”ہم نے بلوچستان میں جو کچھ کیا ہے وہ ریکوڈک کا خاکہ ہے“وہ جھوٹ اور روایتی منافقت کا سہارا لیتے ہوئے کہتاہے کہ،ہم نے ریکوڈک کے اثرات والے علاقے یعنی چاغی کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کردی ہیں۔ہم نے انہیں نمکین پانی کے بجائے صاف پانی مہیا کئے ہیں۔ ہم نے تکنیکی تربیتی کالج
اور پیشہ ورانہ تکنیکی ادارہ قائم کی ہے۔ ہم نے چاغی میں بڑے پیمانے صحت کی سہولتیں دی ہیں۔وہ کہتاہے کہ ہم نے وہاں زیادہ اجرت پر روزگار دیئے ہیں۔ ریکوڈک کے فٹ پرنٹ جو لوگ آباد ہیں ان کو ہم نے ترقی کے بلندیوں پر پہنچا یا یا ہے۔
لیکن بلوچستان اور چاغی میں ترقی اور تبدیلوں کے حوالہ سے مارک برسٹو کایہ دعوی نہ صرف جھوٹ کا پلندہ ہے بلکہ ہمیں یہاں بلوچ قومی اثاثوں کے لوٹ مار کے علاوہ کسی قسم کی زمینی اور معاشی ترقی نظر نہیں آتی۔ بلکہ اس لوٹ مار سے جو چاغی کے بنیادی سماجی و اقتصادی ڈھانچہ ہے، وہ تباہ ہوکر رہ گیا ہے، اور یہاں کے لوگوں کو لوٹ مار کے ایک بے قابو کینسرمیں دھکیل دیا گیاہے۔بیرک گولڈ جیسے سامراجی کمپنی کے چیر مین کا دعوی حقائق کے برعکس ہے۔وہ یہاں سے نہ صرف سونا نکالتے ہیں بلکہ مقامی آبادیوں کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلکہ سیکورٹی کے نام پر ان علاقوں کی آبادیاں سنگین خطرات کا شکار ہے اور یہاں کے لوگوں کو مسلسل تشدد، جبری گمشدگی اور جبری بے دخلی کا سامناہے۔
ایک تو نوآبادیاتی قوتوں کی یہ پرانی تاریخ ہے کہ یہ ترقی کا اصطلاح استعمال کرکے اصل میں تشدد قبضہ اور لوٹ مار کرتے ہیں۔
اور دوسری یہ کہ ان سامراجی کمپنیوں کی پوزیشن وہی ہوتی ہے۔ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی تھی۔ ایسی کمپنیاں اپنی نوآبادیاتی، سامراجی مفادات اور سر مایہ کے ہوس کے لئے بلوچ قوم کو ترقی دینے کے بجائے انہیں معاشی سماجی اور سیاسی طور پر گہری نقصان سے دوچار کررہے ہیں۔بلکہ یہ جیو سٹرٹیجک منصوبہ ساز کمپنیوں کی فطرت ہے کہ وہ نوآبادیاتی والے خطوں کے وسائل کو صرف اور صر اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔نوآبادیاتی قوتوں نے بلوچستان کے زرہ زرہ کو اپنے استحصالی حربوں کا نشانہ بناکر بلوچستان کو معاشی طور پر غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیاہے۔ بیرک گولڈ کمپنیاں جو کارپوریٹ گلوبلائزیشن کے جبر وحشت اور لوٹ مار کے مہرے ہیں۔ مارک برسٹو کا بلوچستان یا چاغی میں ترقی کی بات عالمی دنیا کو گمراہ کرنے سمیت، نوآبادیاتی قوتوں کی گھڑی گئی جھوٹ کو تقویت دینے، حقائق کو زائل کرنے کا حربہ،اور بلو چستان کے حوالہ سے حقیقی معلومات کو دبانے کی سازش ہے۔اس کی گفتگو سے سامراجی نظام کی بدبودار غلاظت واضح نظر آتی ہیں۔اس طرح کے سامراجی کمپنیاں اور نوآبادیاتی قوتیں ایک ہی سکے کے دورخ ہوتے ہیں،
بلوچ وطن جو جو قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے اور ٹھیتیان زون کے حصہ میں ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ دووقت کے روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔ بلوچستان کا واحد زریعہ معاش باڈر ٹریڈ ہے۔جس پر بھی ریاست کی جانب سے پابندیاں ہیں۔ یہاں ہزاروں لوگوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔یہاں کے کثیر آبادی جبری طور پر بے دخل کئے جا چکے ہیں۔قتل و غارت پر مبنی یہ عزائم اگر مارک برسٹو کی نظر میں ترقی ہے۔ تو ایسی متشددانہ ترقی جو بلوچ خونریزی پر مبنی ہو، ایسی ترقی ہمیں نہیں چاہیے۔
ریکوڈک مارک برسٹو کے لے اس وقت سونے کا ایک پروجیکٹ ہوگا لیکن ہماری معدنی،سیاسی، قومی،ثقافتی اور اقتصادی قتل کی مترادف ہے جس کی آمدنی اور مالیات صرف پاکستانی ریاست اور بیرک گولڈ کے گرد گھومتی ہوگی اور اس کی قیمت بلوچ نسل کشی کی خراج پر مبنی ہوگی۔بلوچ قوم کو اس سے کسی قسم کی سماجی تعمیر نو کا فائدہ نہیں ہوگا۔
بلوچستان میں سی پیک،سیندھک، ریکوڈک اور دیگر استحصالی منصوبوں کی پاداش میں ہزاروں فرزندوں کے قتل عام کے زمہ دار یہی سامراجی کمپنیاں ہیں۔اگر آج بلوچ بیدار نہ ہوا اور اس لوٹ مار کے عمل،بیرک گولڈ اور نوآبادیاتی قوتوں کے ان منصوبوں کو نہ روکا تو تو بلوچ کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔ یہ نہ صرف ہمارے وسائل کو لوٹیں گے بلکہ ہماری زمین شناخت اوروجود کو بھی مسخ کردیں گے۔ اور ہمارے حصہ میں پر ٹوٹا ہوا حصہ آجائے گا، یا ہماری زندگیوں میں ریڈ انڈین جیسی مقدر لکھی جائے گی۔ یہ بلوچ کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔بلوچ کو چاہیے کہ وہ اپنی وجود اور دولت کو بچانے کے لئے قومی تحریک کا حصہ بنیں۔ اور ان استحصالی پروجیکٹس کو روکیں۔اپنی وسائل کے دفاع کے لئے کمر بستہ رہیں۔ اور یہ بھر پور عوامی شمولیت کے بغیر ناممکن ہے۔ اور ان طاقتوں کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کریں
بقول باباخیر بخش مری”اگر بلوچ اپنی اقتدار اعلی کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد نہیں کیا، تو تو پھر وہ صرف ہوٹلوں میں جھاڑو پونچنے والے ہوں گے، کھانے والے اور مالک دوسرے ہوں گے۔
ہم کب تک غاصبانہ جبر تلے زندگی گھٹ گھٹ کے جیئں گے۔ ہمیں بیرونی غاصب قوتوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کے ساتھ اپنے اندر عوامی سطح پر جدوجہد کا عمومی جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔اور اس کے لئے بیداری اور عزم کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے صرف نظریاتی سطع پر نہیں، بلکہ عملی طور پر فعال ہوکر بلوچ تحریک کو مضبوط کرنا ہوگا۔ جو ہم سے فوری اور عملی اقدامات کا تقاضا کرتاہے۔
اس سامراجی غلامی سے مکمل نجات حاصل کئے بغیر ہم اپنی سماجی سیاسی معاشی تعمیر نو کا آغاز نہیں کرسکتے۔ قومی نجات کے بغیر ترقی کا خواب محض ایک مروجہ خیالی تصور ہوگا۔ہم جس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں یہ طویل تاریخی ارتقاء قربانیوں اور شہداء کے خون کا نتیجہ ہے۔ہمیں اس راہ کا انتخاب کرنا چاہیے، جو ہماری ترقی تعلیم، علم اورسائنس کی شاہراہ ہے۔ قومی نجات صرف خیالات یا خوابوں سے نہیں ملتی، شاید نوآبادیاتی قوتوں کو جو ملک ملاہے وہ خوابون پر مبنی ہوگی لیکن بلوچ قوم کی نجات کا راستہ خون کے سمندر سے گزرتی ہے۔