تحریر: سعید یوسف بلوچ
زرمبش اردو

بلوچ وطن کی بیٹی اسماء بلوچ نے بی وائی سی کے دھرناگاہ میں پہنچتے ہوئے راجی عدالت میں اپنے زندگی کے تین تاریک دنوں کی تفصیل بیان کی۔ان تین دنوں میں وہ جس اذیت اور ٹراما سے گزری وہ صرف ان کی کہانی نہیں بلکہ پوری جبر زدہ بلوچ سماج کی کہانی ہے۔ اسماء بلوچ کی زبان سے ادا ہونے والی پردرد الفاظ وہ زمینی حقیقتیں اور سچائیاں ہیں، جو وحشیانہ قہر ڈھانے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
وہ بتاتی ہے کے رات کے دو بجے اسے زبردستی نیند سے اٹھاکراس اس کے گھر کے اندر سے جبراً اغواہ کرکے ،اس کے حلق کو دبایا گیا،اسے گھسیٹ گھسیٹ کر گاڈی کی ڈکی میں پھینکا گیا۔ اور اسی حالت میں وہ بے ہوش ہوگئی،ان کے جسم پر بے رحمانہ انداز سے تشدد کیا گیا۔ گھر میں موجود ان کے بھائیوں اور بہنوں اور دیگر خواتین پر تشدد کی گئی۔ انہیں بندوق کے بٹوں سے مارکر لہو لہان کردیاگیا۔
وہ بتاتی ہے کہ مجھ سے زبردستی ویڈیو بنوائی گئی کہ”میں بیان دوں کہ میں ان کے ساتھ اپنی مرضی سے گئی ہوں“مجھ پر دباؤ ڈالا گیا کہ میں ویڈیوکلپ میں ان کی مرضی کا بیان دوں ۔
مین ان کی حراست میں تھی ،مجھے میرے والد اور بھائیوں کی جان سے کھیلنے اور قتل کی دھمکیاں دے کر مجھ سے بیان ریکارڈ کروائی گئی اور مزید دھمکی دیتے ہوئے مجھ سے کہاگیا میں عدالت میں بھی غلط بیانی کرکے ان کی مرضی کے بیان دہراؤں۔
دھرناگاہ میں مائیک پکڑے اسماء گودی کی آنکھوں میں خوف اور بے بسی کی جھلک صاف محسوس ہوتی ہے ۔اس کی زبان سے نکلے ہر لفظ میں، اس کے جسم پر ڈھائے گئے تشدد اور ان کی روح کو زخمی کرنے والے درد کو محسوس کیا جاسکتاہے۔
اس کی آواز کی لرزش اور کمزوری ان تین دنوں کی کرب کی روئیداد ہے ۔
وہ کہتی ہے وہ تین دن مسلسل بھوکی پیاسی رہی۔
پانی کا ایک قطرہ اور غذا کا ایک نوالہ تک حلق سے نہیں گزارا۔وہ ان تین دنوں میں وہ مسلسل خوف تشدد اور دھمکیوں کے ماحول میں جاگتی رہی۔ اور ایک لمحہ کے لے بھی نہیں سوئی۔ وہ مسلسل ٹارچر سے تھک چکی تھی ۔اس کی ہونٹوں سے ادا ہونے والی کرب کی داستان کسی قیامت سے کم منظر کے نہیں۔
گودی کے زبان،باڈی لینگویج اور اس کی ٹوٹتی ہوئی آواز اس بات کی گوائی دیتی ہے،کہ اس پر جو ظلم ڈھایا گیاوہ انسانی اقدار اور عورت کی تقدیس کی بدترین پائمالی ہے۔مگر بلوچستان میں یہ کہانی صرف اسماء بہن کی کہانی نہیں , بلکہ یہاں جبر و قہر کی اسے بے شمار داستانیں دفن ہیں ، جنہیں منظر عام پر نہیں لایا جاتا ۔
اس کی روئیداد کسی ایک فرد کی روئیداد نہیں بلکہ نوآبادیاتی نظام کی وہ زہریلی میراث ہے جہاں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی ہر عورت ہر مردہر مظلوم کو اس طرح کی اذیت کا سامناکرنا پڑتاہے۔
اس کی بیانیہ کی گونج اور اس کی ٹوٹتی ہوئی آواز ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑاہونا نہ صرف ضروری ہے ، بلکہ ہماری قومی سیاسی سماجی اخلاقی اور شعوری زمہ داری بھی ہے۔
اسماء بلوچ کی ہمت ،اس کی سچائی ، اس کی کرب ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لے کافی ہے۔ اگر آج ہم نوآبادیاتی نظام سے پلنی والی جبر کے خلا ف نہ اٹھے تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی اذیت اور غلامی کا شکار ہوں گے ۔ گھٹ گھٹ کے جینے سے بہتر ہے اگر اس راہ حق میں ہم۔ مارے جائے تو کوئی پرواہ نہیں۔ کم ازکم آنے والے نسلیں آئندہ اسماء بلوچ جیسی اذیت نہ سہیں گے ۔