بلوچی ادب پر حملہ

عزیز سنگھور
زرمبش اردو

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں "بلوچی ادب” سے منسلک ایک علم دوست اور قلم کار نوجوان اللہ داد بلوچ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ یہ واقعہ چار فروری 2025 کی شب کو "گمشاد ہوٹل” میں پیش آیا۔ مقتول تربت کے علاقے سنگانی سر، مومن محلہ کے رہائشی تھے۔ وہ انتہائی پڑھے لکھے نوجوان تھے۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے "ہسٹری” میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی جبکہ وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں "ایم فل” کررہے تھے۔ اللہ داد بلوچ کی زیادہ تر زندگی "بلوچی ادب” کو فروغ دینے میں گزری۔ وہ چپھنے والے مختلف بلوچی میگزینز پر کام کرتے تھے جبکہ بے شمار بلوچی زبان میں چھپنے والی "کتابوں” کی زبان کی درستگی بھی کرتے تھے۔ وہ محققین اور مترجمین کی حیثیت سے تاریخ اور سیاست کو عام فہم زبان میں پیش کر رہے تھے، درحقیقت وہ "شعور بیدار” کرنے کی جدوجہد کا حصہ تھے۔

یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اللہ داد بلوچ جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں کا قتل نہ صرف "بلوچی ادب” کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ بلوچستان میں جاری "سیاسی” اور "ثقافتی جبر” کی ایک اور مثال بھی ہے۔

تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ "جبر” جتنا بڑھتا ہے، "مزاحمت” اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے۔

اللہ داد بلوچ نے اپنی زندگی بلوچی ادب کے فروغ میں گزاری، جو کہ ایک انتہائی قابل قدر کام تھا۔ ان کی شہادت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ بلوچستان میں علمی و ادبی شخصیات بھی غیر محفوظ ہیں۔ ان جیسے افراد کی آواز دبانے سے نہ تو "تاریخ” کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی "سچ” کو چھپایا جا سکتا ہے۔

یہ سانحہ بلوچستان میں جاری جبر و تشدد کی ایک اور "المناک مثال” ہے۔ اللہ داد بلوچ جیسے پڑھے لکھے اور ادب دوست نوجوان کا قتل نہ صرف ایک "فرد” کا نقصان ہے بلکہ یہ بلوچستان کے "علمی و ادبی ماحول” پر ایک سنگین حملہ بھی ہے۔

ریاستی جبر کے نتیجے میں نہ صرف سیاسی کارکنان بلکہ دانشور، محقق اور لکھاری بھی نشانہ بن رہے ہیں، جو کہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اللہ داد بلوچ کا قتل اس امر کی علامت ہے کہ بلوچستان میں "اختلافی آوازوں” اور "علمی سرگرمیوں” کو بھی دبایا جا رہا ہے۔

ایسے قتل پر خاموش رہنا مزید جبر کو "دعوت” دینے کے مترادف ہوگا۔
یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے اور آزادیٔ صحافت و اظہار پر یقین رکھنے والے افراد اس قتل کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ بلوچستان میں "علم و ادب” سے جڑے افراد محفوظ رہ سکیں۔

یہ وقت ہے کہ مظلوموں کے حق میں بولنے والے خاموش نہ رہیں، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے کہا کہ اللہ داد بلوچ کو سرکاری اہلکاروں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا، اللہ داد بلوچ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا طالبعلم تھا۔ اللہ داد بلوچ کا شہادت کسی وقتی اشتعال یا انفرادی دشمنی کا نتیجہ نہیں بلکہ ریاستی جبر کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر اور ماورائے عدالت قتل نوآبادیاتی ڈھانچے کا تسلسل ہے جہاں علم اور شعور کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے، اللہ داد بلوچ کا شہادت بھی اس ریاستی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اللہ داد بلوچ کی شہادت محض ایک سانحہ نہیں بلکہ یہ اس تاریخی جدوجہد کا تسلسل ہے جو غلامی کے خلاف چلتی آئی ہے۔ فکری اور نظریاتی مزاحمت وہ قوت ہے جو کسی بھی جابر ریاست کیلئے خطرہ بن جاتی ہے اور بلوچ نوجوانوں کا بڑھتا ہوا شعور ہی وہ روشنی ہے جسے دبانے کیلئے یہ ظلم کیا جارہا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کا بیان ایک تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ داد بلوچ کا قتل کسی "انفرادی” واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس "نوآبادیاتی جبر” کا تسلسل ہے، جس میں بلوچ سماج کے باشعور افراد، خاص طور پر طالبعلموں، معلمین اور دانشوروں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ محض ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد "بلوچ نوجوانوں” کے شعور اور فکری مزاحمت کو کچلنا ہے۔

بلوچستان میں "علم اور شعور” کو ہمیشہ سے خطرہ سمجھا گیا ہے، کیونکہ جابر قوتیں جانتی ہیں کہ "اصل مزاحمت بندوق” سے زیادہ "فکر اور نظریے” میں پنہاں ہوتی ہے۔ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور اجتماعی سزائیں صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں، بلکہ یہ شعور کی سرکوبی اور اجتماعی یادداشت کو مسخ کرنے کا ایک تسلسل ہیں۔

اللہ داد بلوچ جیسے نوجوانوں کی قربانیاں اس بات کی گواہی ہیں کہ بلوچ قوم کی جدوجہد صرف "زمینی وسائل” کے قبضے کے خلاف نہیں، بلکہ یہ "فکری اور نظریاتی آزادی” کی جنگ بھی ہے۔ ان کا قتل ایک پیغام ہے کہ ظلم کرنے والے خوفزدہ ہیں۔ خوفزدہ اس "روشنی” سے جو بلوچ نوجوانوں کے "شعور” کی صورت میں پھیل رہی ہے۔

بلوچستان میں دو دہائی کے دوران متعدد معلمین اور دانشوروں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے ان واقعات میں تیزی سے اضافہ نہایت تشویشناک ہے اور بلوچستان میں جبر اور بربریت کی شدت کا ثبوت ہے۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں، فدا احمد چوک پر اللہ داد بلوچ کے قتل اور دیگر لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما صبغت اللہ شاہ جی کی قیادت میں تین روزہ احتجاجی کیمپ منعقد کیا گیا ہے۔ اس کیمپ میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف تربت میں مختلف اوقات میں احتجاجی ریلیاں اور دھرنے منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔ ان احتجاجی سرگرمیوں کا مقصد جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنا اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اللہ داد بلوچ کی لگن نے بلوچ کمیونٹی کے اندر شعور بیدار کرنے اور روشن خیالی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ خاموش گمنامی میں کام کرتے ہوئے، وہ ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے انتھک پڑھنے، لکھنے اور تنقیدی سوچ کے کلچر کو پروان چڑھایا۔ اس قتل کا مقصد بلوچ سماج کے شعور کو دبانا ہے۔ اللہ داد کا وحشیانہ قتل اس دیرینہ جبر میں ایک اور المناک اضافہ ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا بیان اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان میں علم، شعور اور فکری آزادی کو ایک "منظم حکمت عملی” کے تحت دبایا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء سمی دین بلوچ نے کہاکہ تربت میں بلوچ اسکالر اللہ داد بلوچ کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ اللہ داد جیسے نوجوان کا قتل صرف ایک فرد کا نقصان نہیں ہے بلکہ بلوچ کے تعلیم یافتہ طبقے کے خلاف ایک سنگیں حملہ اور بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے جسکی ہم طویل عرصے سے نشاندہی کرتے آرہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کبھی ٹارگٹ کلنگ، کبھی اجتماعی قبریں، اور کبھی مسخ شدہ لاشیں، بلوچ قوم کو ہر روز کسی نہ کسی شکل میں ریاستی بربریت کا سامنا ہے، جہاں نوجوان، بچے، خواتین کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔سمی نے کہاکہ تمام انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سنگین ریاستی جبر، بلوچ نسل کشی اور اللہ داد بلوچ کے ناحق قتل کے خلاف مؤثر آواز اٹھائیں۔سمی دین بلوچ کا بیان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اللہ داد بلوچ کا قتل بلوچ نسل کشی کی اس پالیسی کا تسلسل ہے، جس کے تحت ٹارگٹ کلنگ، اجتماعی قبریں، اور مسخ شدہ لاشوں جیسے مظالم عام ہو چکے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ بلوچستان میں نوجوانوں، اسکالرز، صحافیوں، اور دانشوروں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد بلوچ قوم کے اجتماعی شعور کو ختم کرنا اور خوف کے ذریعے فکری مزاحمت کو کچلنا ہے۔سمی دین بلوچ کا مطالبہ بالکل جائز ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور آزادیٔ اظہار پر یقین رکھنے والی تمام تنظیمیں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔ خاموشی اختیار کرنا جبر کو تقویت دینے کے مترادف ہوگا۔اللہ داد بلوچ کی "شہادت” اسی استعماری جبر کے خلاف شعور کی نئی لہر پیدا کرے گی کیونکہ "خون” سے بجھائی گئی "مشعلیں” ہمیشہ تاریخ میں نئے "چراغ” جلاتی ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

دشمن اور اسکے دلالوں کیخلاف نکلیں، ایک شدید اور انتہائی بے رحم جنگ کا آغاز کریں۔ بشیر زیب بلوچ

پیر فروری 10 , 2025
بلوچ قومی رہنما اور بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ہم نے کل کہا تھا، اور آج بھی کہہ رہے ہیں اور یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے پاس جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے،آئیے اس دشمن اور اسکے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ