تحریر: سہیل احمد
زرمبش اردو

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ڈالبندن میں پچیس جنوری کو بلوچ نسل کشی یادگاری دن کی مناسبت سے جلسہ منعقد کرنے کے اعلان کے بعد سینٹ پاکستان کے سابق چیئرمین اور اب موجودہ ایم پی اے صادق سنجرانی نے پچیس جنوری کے روز ہی ڈالبندن میں پاکستان زندہ باد ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسہ ڈالبندن منعقد ہوا کامیابی کے ریکارڈ قاہم کیے. بلوچ عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی. کامیابی کے ان مختلف پہلوؤں کو گنا جا سکتا ہے اور ان پر الگ سے بحث کرنے کی گنجائش ہے ان پہلوؤں پر بحث کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے آج کے اس تحریر میں کوشش ہوگی کہ پاکستانی سیاسی مزاج اور معاملات سے نمٹنے کے سطعی طریقہ کار پر بات کی جاہے۔
سنجرانی کا پاکستان زندہ باد کے نام سے جوابی ریلی منعقد ہونے سے اس لیے قاصر رہی. کہ اس روز عوام یکجہتی کمیٹی کے جلسے کے مقابلے میں کسی دوسرے جلسے میں جانا اپنے لیے قومی جرم سمجھ رہے تھے. بلوچ عوام نے پاکستانی سیاسی مزاج سے ہٹ کر جلسے میں پہنچنے اور شرکت کے لیے یکجہتی کمیٹی سے نہ کوئی ٹرانسپورٹ مانگا نہ ہی اس بات کی توقع رکھی کہ جلسے میں کیا وعدے وعید کیے جاہیں گے. ہر ایک نے جلسے کی مدعا و مقصد کو اپنا قومی فریضہ گردانتے ہوئے جلسے میں شرکت کی .اس کے مقابلے میں سنجرانی کا جلسہ و ریلی وقوع پذیر ہونا ممکن نہ ہوا کہ اس روز مجوزہ زندہ باد ریلی کی متوقع قیادت کرنے والے اعجاز سنجرانی کو خود جان کے لالے پڑ گئے پتہ نہیں کس بیماری نے آ لیا کہ انھیں علاج کی غرض سے ایک خصوصی جہاز کے ذریعے کراچی لے جانا پڑا. راوی کہتے ہیں کہ بیماری ویماری کچھ نہیں تھی بلکہ اعجاز کا بڑے بھائی صادق سنجرانی سے ریلی نکالنے کے اعلان پر ناراضگی ہوئی چھوٹے بھائی اس بات پر نالاں تھے کہ پچیس جنوری کے روز ہی ریلی نکالنے کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی. دل گرفتگی کی کیفیت میں اعجاز نے سابق چیئرمین سینٹ کو کہا کہ مصیبت یہ ہے کہ زندہ باد ریلی نکالنے اور اس میں شرکت تو دور کی بات لوگ میرا فون ہی نہیں اٹھا رہے. اداروں کے افسران کا دباؤ الگ سے ہے کہ جیسے بھی ہو ایک ریلی نکالی جائے ریلی نکالنا ممکن نہ ہوا تو خود بیمار پڑ گئے کہ اس کے علاوہ علاقے سے باہر نکلنے اور ریلی منسوخ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں بچا تھا. ڈالبندن کو بلوچ عوام کے حوالے کر کے مصنوعی فوجی گملوں میں پرورش پانے والے سیاسی قائدین ہسپتال سدھار گئے حوالے کیا کرنا تھا بلکہ علاقے کے بلوچ عوام نے اپنے حقیقی قائدین کو دیکھ کر خود ہی ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی.
سنجرانی برادران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نوے کی دہائی میں ان کی جائداد ایک ٹرک کے سوا کچھ نہیں تھی جس میں مہینے میں ایک دفعہ کوئی لوڈ لگ جاتا جس سے بمشکل گھر کا چولھا جل پاتا. اسلام آباد میں پڑھائی کے دوران پہلے مسلم لیگ ن سے قریب ہوئے بعد میں سمجھ آئی کہ اصلی تے وڈے طاقت یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بیعت کر لی جائے اس کے بعد جنابوں کے دن پھر گئے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شراکت داری میں علاقے سے نکلنے والے تمام معدنیات کو بیچنے پر تیار ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر تھے تو جس ریاستی عہدے پر ہاتھ رکھا پیش کیا گیا طاقتور اس بات پر خوش تھے کہ ان چھوٹی نوازشات پر سنجرانی قناعت کیے بیٹھے ہیں تو یہ دینے میں کیا ہرج ہے۔
غالباً 1846 میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ پچھتر لاکھ نانک شاہی سِکوں میں فروخت کر دیا تھا. ان پچھتر لاکھوں کے عوض کشمیر کی پوری سرزمین آبادی و وسائل سمیت بیچ دی گئی. سنجرانی برادران یا جو کوئی بھی بلوچ سرزمین کے وسائل کو اپنی ذاتی آسائش کے لیے بیچ رہا ہے وہ بلوچ سرزمین اور اور اس کے وسائل کو بے وارث سمجھنے کی غلط فہمی میں سے نکل جائے تو بہتر ہے نانک شاہی کے سکوں کے عوض سرزمین و وسائل بیچنے اور کاسہ لیسی سے حکمرانی کرنے کا دور گزر چکا۔
بی بی سے کے ریاض سہیل نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے جلسے کے لیے ڈالبندن کا انتخاب کیوں؟ کے عنوان سے ایک رپورٹ لکھا جس میں وہ ایک مقامی شہری کا حوالہ دیتے لکھتے ہیں کہ مقامی شہری نے کہا ’دنیا سمجھتی ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے سونا، چاندی اور تانبا ہے جبکہ ہمارے پیروں کے نیچے نہ سڑک ہے، نہ پیٹ میں خوراک ہے اور نہ ہی ہمارے پاس صحت اور تعلیم کی سہولت ہے۔
اپنے علاقے کے حوالے سے کسی مقامی کا جو اس سرزمین سے تعلق رکھتا ہو اسطرح کی راہے رکھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنے سرزمین میں دفن قیمتی معدنیات اور اس سے بڑھ کر سرزمین سے محبت اور اس جبر سے نجات کا شعور رکھتا ہے۔
یہ تحریر مکمل ہونے کو تھی کہ ایک نیوز نظر سے گزری جس میں بلوچ جدوجہد آزادی سے منسلک میر جاوید مینگل اپنے ایک ٹوہیٹ میں کہتے ہیں کہ بی این پی میں ناسوروں کی کثرت ہے جنھیں ایک میجر سرجری کی ضرورت ہے یہ بات میر جاوید مینگل نے صحافی اکبر نوتیزئی کی ٹوہیٹ کوٹ کرتے ہوئے کہا جس میں اکبر نوتیزئی لکھتے ہیں کہ بی این پی مینگل کے مرکزی رہنماء اور ایم پی اے واجہ ثناء بلوچ نے سیندک پراجیکٹ کے متعلق کورٹ میں دائر اپنے کیس کی پیروی اس لئے نہیں کی کیونکہ ان کے بھائی سمیع اللّٰہ بلوچ کو جوزک ایئرپورٹ چاغی کا ٹھیکہ دیا گیا.میر جاوید مینگل مزید کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے سردار عطاءاللہ خان مینگل کے سیاسی نظریات اور اصولوں سے روگردانی کرکے صادق سنجرانی اور قدوس بزنجو جیسے لوگوں کو اپنا ہم خیال سمجھا. ان ناسوروں سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر جدوجہد نظریاتی و شعوری ہو اور پارٹی نظریاتی تو ایسے لوگ ناسور کی حد تک پہنچنے سے پہلے ہی کنارہ ہو جاتے ہیں میجر سرجری کی نوبت ہی نہیں آتی اگر کوئی پارٹی ان کو جان بوجھ کر اپنے سینے سے لگانا چاہے تو موقع پر اپنے چال چل جاتے ہیں بلکہ پارٹی کو اس اصولوں والی سیاست سے ڈگر بدلنے پر مجبور کرتے ہیں ایک وقت آ جاتا ہے کہ پارٹی انھی ہاتھوں میں یرغمال ہو چکی ہوتی ہے. ایک یہ واحد واقعہ نہیں ہے جہاں کسی پارٹی عہدیدار نے درون خانہ اپنا حصہ لیا ہو. ایسا ہوتا ہے وہ پارٹیاں جو ریاستی سسٹم کے اندر رہ کر اپنے ہدف کی طرف بڑھنے کو اپنا سیاسی طریقہ بنا لیتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں تو سسٹم ان کو اپنا حصہ بنا لیتا ہے وہ اس ریاستی سسٹم سے الگ تلگ نہیں رہ سکتے یا اس کو resist نہیں کر سکتے بلکہ وہ اسے resist کرنا ہی نہیں چاہتے مضبوط و منظم پارٹیاں ہی مدافعتی میکینزم تشکیل دے سکتے ہیں جہاں پر وہ اصولی یا فکری جھول دیکھتے ہیں وہ اس کی پیش بندی کر لیتے ہیں پارٹی سسٹم ہی ایک میکنزم کے تحت درجہ بہ درجہ انھیں مختلف پارٹی اداروں کا حصہ بنا دیتا ہے. اگر پارٹی پروگرام میں اتنی لچک ہے کہ ایک نو آموز اپنے معاشی حیثیت کی بنیاد پر پارٹی کے کسی بھی ادارے کا عہدہ لے سکتا ہے اسے پھر پارٹی اصولوں کو پاؤں تلے روندنے کا اختیار مل جاتا ہے پارٹی آہین و قانون کے کمزور رسیاں اسے باندھ کر نہیں رکھ سکتے۔
ٹھیکیداروں نے قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور بعض قوم پرست ٹھیکیدار بن گئے ہیں. جب بھی کہیں بھی کوئی ٹھیکہ ملنے کا چانس مل جائے تو قوم پرستی و وطن دوستی ہائبرنیشن میں چلی جاتی ہے اصول اپنا منہ چھپا لیتے ہیں ضمیر (اگر اس میں زندگی کی رمق باقی ہے) تو تین چار رضائیاں اوڑھ لیتا ہے. معاشی معاملات اولین ترجیح اختیار کر لیتے ہیں۔