خضدار سے لڑکی اغواء کا واقعہ

ہم کو معلوم ہے سردار نے کس کس در پر
سر کیا ہے خم تسلیم تو دستار ملی

تحریر سہیل احمد

لگ بھگ تیس سال پہلے کا واقعہ ہے زہری علاقے کے مرد خواتین کوئٹہ کراچی ہائی وے پر احتجاجاً بیٹھے ہوئے ہیں خواتین دہائی دے رہے ہیں کہ سردار ثناء اللہ نے ہمارے ایک معتبر ماسٹر عزیز کو کو اپنے مہمان خانے میں ہاتھ پاؤں باندھ کر گولی مار دی کہ میرے کیے گئے فیصلے سے اختلاف کیوں رکھا. احتجاج ہوا سڑکیں بند ہوئیں، میڈیا میں اتنی ترقی اور وسعت نہیں تھی اخبارات دور دراز کے واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے تھے اس واقعے کے خلاف پمفلٹنگ ہوئی پھر معاملہ دب گیا. تیس سال گزر گئے ہیں، اس دوران ثناء اللہ زہری صوبائی وزیر، سینیٹر اور وزیراعلیٰ بھی بنے. پی این پی، بی این پی، بی این ڈی پی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں سیاسی چھلانگیں لگاتے رہے لیکن مجال ہے کہ ان کے خیالات میں ذرہ بھر تبدیلی آئی ہو۔

تیس سال بعد بعینی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جب گزشتہ شب پانچ اور چھ فروری کی درمیانی رات گئے اندازاً ایک بجے خضدار کے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں پندرہ سے بیس افراد پر مشتمل مسلح جتھہ عنایت اللہ جتک کے گھر کی چار دیواریں پھلانگ کر داخل ہوئے جھتے کی قیادت ظہور جمالزئی، جو نائب رحیم بخش جمالزئی کا بھائی ہے اور انجیرہ (سردار ثناء اللہ زہری کا علاقہ) کا رہائشی اور ذاتی سیکیورٹی گارڈ ہے،کر رہے تھے مسلح جھتے نے عنایت اللہ جتک کی بیٹی کو شادی کے رشتے سے انکار کرنے پر اغوا کر لیا۔ یاد رہے کہ ظہور جمالزئی نے اس سے پہلے عبدالسلام، جو کہ لڑکی کا منگیتر تھا، کو بھی قتل کیا تھا۔

گھر میں موجود خواتین ماؤں اور بہنوں کی چادر کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھر کے مکینوں کو جن میں خواتین مرد بچے شامل ہیں سبھی کو یرغمال بناکر ایک معصوم بیٹی کو بزور طاقت اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے اس دوران گھر میں موجود مردوں کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر ان پر بیہمانہ تشدد کیا گیا اور خواتین کو بھی اپنی وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ گھر میں توڑ پھوڑ بھی کرتے رہے دیدہ دلیری سے یہ تمام تر مسلح کاروائی کرنے کے بعد یہ مسلح لشکر بغیر کسی خوف و خطر کے معصوم بچی کو اغواء کرنے کے بعد پُرسکون انداز میں اپنے محفوظ پناہ گاہ تک بھی پہنچ گئے. اس دوران قانون اور انتظامیہ کے ادارے لمبی تان کر سوتے رہے وجہ یہ تھی کہ اب پھر خاتون کے اغواء میں سردار ثناء اللہ زہری کے ہی نائب ملوث تھے. بعد میں شاید اس پر مختلف تاویلات گھڑے جاہیں کہ رشتے کا تنازعہ تھا قانون کے اندھے آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے کسی اور پیرائے میں بیان کر جان خلاصی کی جائے لیکن ایک سادہ سی اور سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ تیس سال پہلے جسطرح خواتین زہری انجیرہ کراس پر قرآن پاک ہاتھ لیے ثناء اللہ کو بددعاہیں دے رہے تھے. تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ بالکل وہی منظر ہے اور خواتین قرآن پاک سر پر رکھے بددعاہیں دے رہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ تیس سال پہلے ایک مرد کو گولی ماری اور اب ان کے کارندوں نے ایک لڑکی کو اغواء کیا ہے. تیس سال پہلے کے خونی واقعے سے لیکر گزشتہ شب کے شرمناک اور روایات کو روندھے جانے والی لڑکی کے اغواء کے واقعے تک کے درمیانی مدت میں نہ جانے کتنے عزیز مارے گئے ہونگے اور کتنے عاصمہ اغواء ہوئے ہونگے. ان تمام کی تکلیف دہ منظر کشی کے لیے یہی دو واقعات کو دیکھنا ہی کافی ہے.
واقعے سے ایک دن پہلے ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں سردار ثناء اللہ زہری کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنے قبیلے کے لوگوں سے احوال کررہے ہیں ساتھ میں ریٹائرڈ جنرل قادر چنال بیٹھے ہوئے ہیں جو ہر دو تین سال کے دوران اپنے سردار کو کسی پارٹی میں گھسیٹ کر لے جاتے ہیں. تو ثناءاللہ زہری دیوان میں بیٹھے بلکہ کھڑے لوگوں سے بات کرتے ہوئے اپنے لوگوں سے محبت اور قربت بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہربوئی کی چوٹی پر اگر کوئی زہری پیاسا بیٹھا ہو تو میرا دل کہتا ہے میں ایک چھاگل پانی وہاں بلندی پر لے کر اسے پانی پلاؤں اس کا پیاس بجھاؤں. جنرل قادر بھی اس بات کی تاہید کرتے ہیں اور باقی کھڑے لوگ بھی جی جی کرنے میں اپنی زبان گھس دینے میں کسر نہیں چھوڑتے۔

سردار ثناء اللہ زہری صاحب جو کوئی بلوچ ہربوئی کی چوٹی پر جا سکے وہ اپنی پیاس بجھانے کے آپ کے لانے والے پانی کی کلی کا انتظار نہیں کرتا اس پیاسے کی فکر کرنے کی بجائے آپ اپنے کارندوں کو لگام دیجئے جو عزتوں پر ہاتھ ڈالنے تک پہنچ گئے ہیں.
گزشتہ شب کے واقعے کے بعد متاثرہ خاندان نے رات کے آخری پہر سے قومی شاہراہ کو خواتین و بچوں کے ساتھ ملکر بطور احتجاج بند کی ہوئی ہے جو کہ تادم تحریر ایک دھرنے کے صورت میں جاری ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ متاثرہ خاندان صبح سے سوشل میڈیا کے توسط سے صاف الفاظ میں حملہ آوروں کے سرغنہ انکے سہولت کار اور پشت پناہوں کا نام لے رہے ہیں لیکن کسی بھی قانون نافز کرنے والے سرکاری ادارے میں انکے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔

ثناء اللہ زہری اور ان کے سیاسی وارث حمزہ نے سوشل میڈیا بیانات کے ذریعے اس واقعے سے رسمی سا لا تعلقی کا اظہار کیا. ہوسکتا ہے وہ ان غنڈوں کی پشت پناہی سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیں لیکن شواہد اور گزشتہ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے نہیں ہچکچاتے کہ وہ اسطرح بلوچی روایات کو روندنے اور خواتین کے دوپٹوں پر ہاتھ ڈالنے والوں کی پشت پناہی کرتے رہیں گے.
کہتے ہیں کہ سردار ڈومکی جو اپنے والد کے وفات کے بعد صوبائی اسمبلی کی نشست پر اپنے حلقے سے منتخب ہوئے اور انھیں محکمہ بلدیات کا قلمدان دیا گیا نو آموز سردار اور نو حلف گرفتہ وزیر سردار ڈومکی کراچی جاتے ہوئے خضدار میں اپنے محکموں کے آفیسروں کی شان کے مطابق پروٹوکول نہ دینے پر ناراض ہوئے اور افسروں کی سرزنش کی اور معطلی کے احکامات دیئے. وہ شاید ایک مضبوط جمہوری نظام کا اپنے آپ کو مکمل وزیر سمجھ بیٹھے تھے. ڈومکی کے سرزنش اور حکم ناموں سے دل گرفتہ آفیسروں نے سردار ثناء اللہ زہری سے رابطہ کیا اور اپنی بے عزتی اور بار بار سردار کو آپ کا علاقہ کی گردان کرتے رہے. سردارزہری کا پارہ اوپر ہوا اور وہ ادھر ادھر فون گھماتے رہے تب اختیار داروں نے جو وزراء کی نشستوں پر اٹھک بیٹھیک کراتے ہیں کہا کہ آپ تو وزارت اعلیٰ بلوچستان سے کم پر راضی نہیں ہوتے جو کہ فی الحال بگٹی کو دی گئی ہے تو زہری نے فوراً اگلی بات رکھی کہ حمزہ زہری کو مشیر بنا کر بلدیات کا قلمدان دیا جائے. حمزہ مشیر با اختیار بن گئے ڈومکی سے قلمدان واپس لی گئی. سرفراز بگٹی کے سر سے تاج اترنے کا خوف کم ہوا. ثناء اللہ نے افسروں پر علاقہ وارثی کا احسان رکھ لیا. سیاسی پارٹیاں بدلنے دوران یہ ٹیکٹکس سردار زہری نے سیکھ لیے ہیں کہ وفاق میں کس کو نیشنل اسمبلی کا ممبر بنا کر بٹھایا جائے اور صوبے میں کسطرح منتخب ہوئے بغیر وزارت لی جائے لیکن لوگوں کو قتل کرنے کا جو منہ پر جو خون لگا ہوا ہے وہ چھٹنے میں نہیں آ رہی۔

پیپلزپارٹی میں شمولیت کرتے وقت ثناء اللہ پی پی کا جھنڈا گلے میں ڈالتے ہوئے کہا کہ بلاول صاحب آج سے ثناء اللہ آپ کا ہوا یہ سنتے ہی زہری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ خدا کرے کہ ثناء اللہ ہمیشہ کے لیے انھی کے ہو کر وہیں بس جائیں تو ہماری جان چھوٹے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

شہید سلال بلوچ ایک زمین دیوانہ تھا

جمعہ فروری 7 , 2025
تحریر : زدّگ بلوچزرمبش اردو ‎جب مٹی کی خوشبو رگوں میں اتر جائے، جب زمین کی محبت دل میں عشق کی صورت جاگ اٹھے، تو وہ شخص عام انسان نہیں رہتا—وہ ایک دیوانہ بن جاتا ہے، ایک بغاوت، ایک کہانی۔ سلال ایسا ہی ایک عاشق تھا—اپنی دھرتی کا عاشق، آزادی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ