بلوچ کے سیاسی استاد کے نام

تحریر: ایم بلوچ
زرمبش اردو

معذرت کے ساتھ، میں نے وعدہ کیا تھا مگر اسے نبھا نہ سکا۔ میں نے اپنے پچھلے خط میں آپ سے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے خطوط کا سلسلہ جاری رکھوں گا، لیکن سستی اور کاہلی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شرمندگی کے ساتھ یہ خط لکھ رہا ہوں، براہِ کرم اس تاخیر کو درگزر کریں اور اسے قبول فرمائیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور ہمیشہ کی طرح اپنی خوش مزاجی کے ساتھ سیاسی موضوعات پر بحث و مباحثہ کرتے رہے ہوں گے۔ اگر کوئی آپ کے بارے میں پوچھے تو میں بلا جھجک یہی کہوں گا کہ اگر کسی کو سیاست سمجھنی ہے تو وہ آپ کی بصیرت اور تجربات سے سیکھے۔ آپ کے کام اور دی گئی ہدایات سیاست میں کامیابی کی ضمانت ہیں۔

بلوچ کے سیاسی استاد

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ میں آپ کو بلوچستان کی سیاسی و سماجی صورتحال سے آگاہ کروں گا، مگر یہاں میں صرف تعریفیں کر رہا ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا، اسی لیے ان الفاظ کو لکھ ڈالا۔ لیکن بابا! بہت سے اچھے اور برے حالات بلوچ پر گزرے ہیں جب سے میں نے خط نہیں بھیجا۔ بقول آپ کے، صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

آپ تو جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سیاست نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں وہ سب کچھ ہوا جس کی پیشن گوئی بڑے سیاسی ماہرین نے بھی نہیں کی تھی۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے بلوچ سیاست اور جغرافیہ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

چند اہم معاملات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ آپ کے دوستوں نے پہلے ہی آپ کو ان سے آگاہ کیا ہو، مگر میں مختصر طور پر آپ کو بتا دیتا ہوں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان نے عبوری حکومت بنائی اور دنیا سے تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کے بعد یوکرین اور روس کی جنگ چھڑ گئی، جس میں کئی لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ جنگ تو اسی کا نام ہے، جہاں موت ہی موت ہوتی ہے، تباہی ہی تباہی ہوتی ہے۔ مگر اس جنگ کے نتیجے میں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہونے لگی، جیسے 1945 کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ کچھ لوگ تو اسے سرد جنگ 2.0 کا نام دے رہے ہیں۔ روس نے اپنے اتحادی بنا لیے ہیں، اور اسی جنگ کے دوران ایران نے سعودی عرب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن اس بار ثالث امریکہ نہیں بلکہ چین تھا۔ چین اس خطے میں اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اپنی لابی میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، اور اس جنگ نے آگ کی طرح دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایران اور اس کے پراکسیز نے بھی اس میں کردار ادا کیا، مگر اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچایا اور اس کے بڑے بڑے رہنما مارے گئے۔

حال ہی میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، جس میں طلبہ تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح، شام میں بشار الاسد کی حکومت کو بھی ہٹا کر HSF نے اقتدار سنبھالا۔ سال 2024 ایسا سال ثابت ہوا جس میں کئی ممالک کے انتخابات ہوئے اور حکومتیں تبدیل ہوتی گئیں۔ کئی ایسے رہنما اقتدار سے باہر ہوئے، جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تجزیہ نگار بھی ان تبدیلیوں پر حیران رہ گئے، مگر سیاست وہ چیز ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہے، اور یہی یہاں بھی ہوا۔

مظلوموں کے رہبر

اب آتے ہیں اپنی ہی سرزمین، بلوچستان، کی جانب، کیونکہ اس کے بغیر یہ خط نامکمل ہوگا۔ اگرچہ بلوچستان ایک جسم کی مانند ہے، مگر اس میں جان تب ہی آئے گی جب ہم اس پر بات کریں گے۔ بلوچستان کے بارے میں مختلف تجزیہ نگاروں کی مختلف آراء سامنے آئیں۔ جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بلوچستان میں جنگ کا رخ بدل جائے گا اور بلوچ تحریک کمزور پڑ جائے گی، رہنماؤں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مگر صورتحال اس کے برعکس ہوئی۔ بلوچ تحریک کے کارکنوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائی۔ مایوس ہونے یا کمزور پڑنے کے بجائے، انہوں نے سب کو حیران کر دیا۔ نہ صرف جنگی حکمت عملی میں بلکہ سیاست، سفارتکاری، ادب، علم، پروپیگنڈا، ٹیکنالوجی ہر شعبے میں جدیدیت لے آئے۔

یہی وجہ ہے کہ دشمن بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ بلوچ تحریک محض ناراضگی نہیں بلکہ ایک حقیقی آزادی کی جنگ ہے۔ ریاستی تھنک ٹینکس بھی اب اسے ایک خطرہ تصور کرنے لگے ہیں۔ جنگ میں اب صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ خواتین، جنہیں معاشرے میں کمزور سمجھا جاتا تھا، اب بہادری میں اپنی مثال آپ بن چکی ہیں۔ کئی فدائی حملے کیے گئے، جنہوں نے دشمن کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ بات آپ بخوبی جانتے ہوں گے، کیونکہ وہ خود آپ کے پاس آ کر دشمن کی بزدلی اور اپنی بہادری کی داستانیں سناتی ہوں گی۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ڈاکٹر منان جان ہمارے سیاسی لیڈر ہی تھے

ہفتہ فروری 1 , 2025
تحریر: گورگین بلوچزرمبش اردو میرے گھر کے قریب بلوچستان کا جھنڈا لہراتا ہوا نظر آتا تھا۔ میری دادی روز جھنڈے کو دیکھ کر کہتی” کاش! یہ جنگ کامیاب ہوتا۔” آج جنگ کامیاب دکھتی ہے لیکن میری دادی ماں خاموش آزادی کی خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ