بلوچ تحریک: کل اور آج

ذوالفقار علی زلفی

بلوچ مسئلہ نوآبادیاتی نظام ہے اور اس کا حل اس نظام کا مکمل خاتمہ ـ ہر نوآبادکار کی طرح پنجابی بھی ایک پرتشدد مشین ہے جو قومی آزادی کے طالب ہر مقامی فرد کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے ـ نوآبادکار سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ایک روبوٹ کی طرح کام کرتا ہے ـ نوآبادیاتی نظام کی ساخت اور حرکت کے گہرے مطالعے کے بعد بابا خیر بخش مری اس نتیجے پر پہنچے کہ پنجابی نوآبادکار کو سوائے مسلح جدوجہد کے کسی اور طریقے سے نکال باہر کرنا ممکن نہیں ـ اپنے اسی نتیجے کے بل پر وہ گراؤنڈ میں آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے قیام کی مخالفت کرتے رہے ـ ان کے مطابق آزادی پسند سیاسی جماعت کو متشددانہ طریقے سے کریش کرکے تباہ کردیا جائے گا ۔ـ

سال 2002 میں موجودہ بلوچ تحریک نے سر ابھارا ـ مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ غلام محمد بلوچ کی قیادت میں "بلوچ نیشنل موومنٹ” کے نام سے ایک آزادی پسند غیر پارلیمانی سیاسی جماعت کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ـ مسلح تحریک کے شانہ بشانہ اس سیاسی جماعت نے بھی جلد ہی عوام میں زبردست مقبولیت حاصل کرلی ـ سال 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد ان کی جماعت "جمہوری وطن پارٹی” پہلے منتشر پھر مکمل طور تحلیل ہوگئی ـ اس پارٹی کے ملبے پر نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے آزادی پسند غیر پارلیمانی سیاسی جماعت "بلوچ ری پبلکن پارٹی” کی بنیاد رکھی ـ اس دورانیے میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے آزادی پسند طلبا تنظیم "بی ایس او آزاد” کی داغ بیل ڈالی ـ بعد ازاں یہ ساری جماعتیں ایک وسیع قومی اتحاد "بلوچ نیشنل فرنٹ” کا حصہ بن گئیں۔ ـ

بلوچ نیشنل فرنٹ میں شامل سیاسی جماعتیں بشمول بی ایس او آزاد کھلے عام قومی آزادی کی تحریک چلانے لگیں ـ جلسے، جلوس، ریلیاں، سیمینار الغرض ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں کی بہار آگئی ـ سال 2007 میں مسلح تنظیم بی ایل اے کے حالیہ سربراہ اور اس دور میں طالب علم لیڈر بشیر زیب کی ہدایت پر بی ایس او آزاد نے کوئٹہ میں "حمایت سرمچاران ریلی” کا انعقاد کیا ـ یہ نواب خیر بخش مری کے استقبال کے واقعے کے بعد تعداد کے لحاظ سے کوئٹہ کی دوسری سب سے بڑی ریلی ثابت ہوئی ـ آزادی کے نعروں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کوئٹہ گونجتا رہا ـ ایسا لگا جیسے بس کل بلوچستان آزاد ہونے ہی والا ہے ـ اس کے بعد بی ایس او آزاد نے ایک قدم آگے بڑھ کر "سبوتاژ مہم” چلائی۔ ـ

سال 2008 میں مکمل پروفائلنگ کے بعد نوآبادیاتی مشین حرکت میں آگئی ـ بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد بلوچ اور بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سیکریٹری جنرل شیر محمد بلوچ بشمول لالا منیر بلوچ پہلے جبراً گم شدہ پھر چند روز بعد مسخ لاش بن کر بازیاب ہوئے ـ اس کے بعد جبری گم شدگی اور مسخ لاشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ـ بے رحم سلسلہ ـ "مارو اور پھینک دو” پالیسی پوری شدت کے ساتھ نافذ ہوگئی ـ سیکڑوں افراد جبری گم شدگی کا شکار ہوئے، متعدد کی مسخ لاشیں ملیں، سیکڑوں ہنوز جبراً لاپتہ ہیں، گھروں کو نذرآتش کیا گیا، پورے پورے دیہات مٹا دیے گئے، ڈیتھ اسکواڈز بنا کر انہیں ہر سوچنے والے ذہن کے شکار پر لگا دیا گیا، جبری ہجرتیں ہوئیں ، عصمتیں تک لٹ گئیں ـ اس مہلک کریک ڈاؤن نے ایک پوری باشعور نسل کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیا ـ بی ایس او آزاد کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی گئی۔ـ

سیاسی رہنماؤں کے قتل، جبری گم شدگی و ہجرت نے سماج کو بے سمت بنا دیا ـ پروفیسر صبا دشتیاری نے گوشہ نشینی چھوڑ کر رہنمائی کا منصب سنبھالا ـ سال 2011 میں وہ بھی ہدف بنا کر قتل کردیے گئے۔ ـ

نسلی صفائی کے اس سفاک عمل کے بعد بلوچستان کے ہر شہر اور قصبے پر فوج قابض ہوگئی ـ دیواروں پر پاکستانی پرچم ، محمد علی جناح کے خودساختہ اقوال اور اقبال کے مذہبی نیشنل ازم پر مبنی اشعار پینٹ کئے گئے ـ خوف اور دہشت کی ایسی فضا بنائی گئی کہ نوجوان مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوگئے ـ کتابیں شجرِ ممنوعہ بن گئیں ـ خاص طور پر بلوچی کتاب لے کر چلنا یا اس کا بیچنا ناقابلِ معافی جرم بن گیا۔ـ

سماج جمود کا شکار ہوگیا ـ صرف مسلح محاذ ہی خود کو کسی نہ کسی طرح سنبھال پائی ـ گراؤنڈ پر موقع پرست سیاسی جماعتوں، ڈیتھ اسکواڈز اور مختلف مافیاؤں کا راج قائم ہوگیا۔ ـ

بابا خیر بخش مری درست ثابت ہوگئے کہ قومی آزادی کا حصول گراؤنڈ پر رہ کر پرامن سیاست کے ذریعے ناممکنات میں سے ہے ـ غلط طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بابا خیر بخش مری سرے سے سیاسی جماعت کے مخالف اور صرف بندوق کے حامی تھے ـ ایسا ہرگز نہیں ہے ـ وہ متعدد دفعہ کہہ چکے تھے کہ پنجابی نوآبادکار شکل بدل بدل کر مختلف روپ میں آئے گا اس لئے اس کا مقابلہ بھی الگ الگ طریقوں سے کیا جانا چاہیے ـ ان کا اختلاف گراؤنڈ پر رہ کر قومی آزادی کی تحریک چلانے پر تھا ـ وہ تکرار کے ساتھ پنجابی کو ایک عیار، دھوکے باز اور سفاک دشمن کے طور پر یاد کرتے تھے۔

سال 2012 وہ سال تھا جب بلوچ سماج مکمل طور پر جمود کا شکار نظر آیا ـ چار سال کے اندر اندر بلوچ نے اپنے بہترین اذہان کھو دیے ـ سال 2014 میں توتک سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جن سے 169 لاشوں کی باقیات ملیں ـ اس دل خراش سانحے پر بلوچستان میں کوئی بڑا احتجاج تک سامنے نہ آیا ـ ایسا لگا جیسے بلوچ اپنی مزاحمتی فطرت سے دست بردار ہوچکے ہیں ـ لاوا مگر پکتا رہا۔ـ

سال 2020 میں کیچ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈنک کی ایک گھریلو عورت ڈیتھ اسکواڈز کے اراکین سے مزاحمت کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں ـ یہ سانحہ ایک چنگاری ثابت ہوئی جس نے برمش تحریک کو جنم دیا جس نے تیزی سے ارتقائی مراحل طے کرکے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی شکل اختیار کرلی۔ـ

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین قیادت نے دس سالوں پر محیط خوف و دہشت کی فضا کو ختم کردیا ـ عوامی سیاست کی بہار نے موقع پرستوں، ڈیتھ اسکواڈز، مافیا اور مسترد شدہ سرداروں پر مشتمل موسم خزاں کو شکست دے دی۔ـ

بلوچ قومی تحریک کے اس ابھار نے متعدد چیزوں کو بدل دیا ـ مردانہ بالادستی کے قلعے گر گئے، روایتی سیاست کا جنازہ نکل گیا، سوشل میڈیا اہم ہتھیار بنا ـ نوجوان خواتین قیادت پر مشتمل یہ عوامی ابھار ماضی کی نسبت زیادہ تلخ اور قومی معاملات پر کم لچک دار ہے ـ یہ جبری گم شدگان اور شہدا کے بچوں کی تحریک ہے جنہوں نے آگ و خون میں پرورش پائی ہے ـ جنہوں نے بس جنگ اور اس کے عذاب دیکھے ہیں ـ یہ سڑکوں پر جوان ہوئی ہے ـ یہ کسی مروت اور لحاظ کو خاطر میں نہیں لاتی ـ اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتی ہے۔ـ

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی نوجوان قیادت و جہدکاروں کو مگر ماضی سے سیکھنا چاہیے ـ نوآبادیاتی مشین سے براہ راست بھڑنے سے اپنا دامن بچانا چاہیے ـ پاکستانی آئین کے دائرے میں رہ کر شہری حقوق کی بازیابی کا جو نعرہ لگا کر وہ اٹھے ہیں انہیں سختی سے اس پر کاربند رہنا چاہیے ـ سال 2008 میں بھی یہی آصف زرداری پاکستان کا صدر تھا ـ اس عیار شخص پر گہری نظر رکھنی چاہیے جس نے چُن چُن کر موقع پرستوں اور ڈیتھ اسکواڈز کے سربراہوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے ـ یہ توتک کے اجتماعی قبروں کے خالق شفیق مینگل کو مدبر قرار دینے سے بھی نہیں چوکتا ـ اسے سنجرانی کو سر پر بٹھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ ـ

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ایسے لوگوں سے خبردار رہنا ہوگا جو کہتے ہیں "چڑھ جا سولی پہ رام بھلی کرے گا” ـ اس جمود کو توڑنے اور سماج کو ایک زندگی بخش حرکت دینے میں انہیں اسلام آباد کی یخ بستہ سردی میں ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑا ہے ـ ان کے ہم راہ جبری گم شدگان کے حرما نصیب خاندان ہیں ـ اس پوری تحریک کو کسی مہم جوئی سے دور رکھنا بہتر ہے۔ـ

آزادی کی کھلم کھلا تحریک جو چلا رہے ہیں، انہیں چلانے دیں ـ نہ کسی پرتشدد سرگرمی کی مذمت کرنا ان کا فرض ہے اور نہ ہی پرتشدد مسلح تحریک کی کھلی حمایت ان پر واجب ـ مکار و سفاک دشمن موقع کی تاک میں ہے اور اس دفعہ یہ موقع اسے کسی صورت نہیں دینا ۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ اجتماعی اور متحدہ عوامی تحریک ہے۔ بلوچ وومن فارم

ہفتہ جنوری 25 , 2025
بلوچ وومن فارم کی جانب سے جاری بیان میں کہا ہے کہ بلوچ نسل کشی کئی دہائیوں سے جاری ہے، ان کی بدلتی ہوئی شکلوں کے ساتھ، جس کی ہم بطور بلوچ وومن فارم سخت ترین اور انتہائی نازک الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ثقافت، زبان اور معیشت سمیت بلوچ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ