نیشنل پارٹی دورہ غداری اور لوٹ مار کے معائدے   (حصہ ہفتم)تحریر را مین  بلوچ

(یہ تحریر بنیادی طور پر نیشنل پارٹی کے چین سے کئے گئے معائدات پر مرکوز ہونی چاہیے تھی، لیکن تحریر کی طوالت کی وجہ سے میں قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہوں،اب یہ تحریر ”چین کے عالمی سامراجی عزائم اور بلوچ وطن کے تناظر“میں لکھا جارہاہے۔اس تحریر میں ہم کوشش کریں گے چین کی ان سامراجی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جائے ،جو بلوچ وطن سمیت مختلف خطوں میں اپنا پنجہ گاڑھ رہاہے۔میری ذاتی خوائش ہے کہ قارئین کو چین کی توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کروں۔جس کی ترقی کا اتنا واویلا ہے، اس  ترقی کے پیچھے چھپے سامراجی حربوں کومکمل بے نقاب کروں۔چین کے سامراجی عزائم سے آگائی اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کی پالیسیاں نہ صرف عالمی امن کے لئے خطرہ ہے بلکہ بلوچ وطن کی آزادانہ حیثیت،اور داخلی معاملات میں مداخلت بھی شامل ہیں۔)

(چین کی قبضہ گیرانہ پالیسیوں کا دائرہ کار صرف مشرقی ترکستان(سنکیانگ) تک محدود نہیں۔بلکہ یہ کئی علاقوں تک پہنچ چکی ہے،  ان میں تبت،ہانگ کانگ،،گلگت  بلتستان،تائیوان، انڈیا اور کشمیر شامل ہیں۔چین نے ان علاقوں میں اپنے سیاسی، فوجی، اور اقتصادی سٹرکچر  منصوبوں کے زریعہ توسیع پسندانہ اثر و رسوخ بڑھانے کی مجرمانہ کوششیں کررہاہے۔۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو چین نے اپنے سیاسی اور فوجی اجارہ داری کو افریقہ، تاجکستان، سری لنکا اور کئی دیگر خطوں تک پھیلا رہاہے۔ ان کی یہ جارحانہ پالیساں عالمی سطح پر مختلف قسم کی کشیدگیوں اور تنازعات کو بڑھادیاہے، جو تیسری جنگ عظیم کا سبب بن سکتے ہیں۔

   چین نے 1950 میں پر فوج کاروائی کے زریعہ”تبت“ پر قبضہ کیا۔ یہ اقدام چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ابتدائی حصہ تھا، جہاں چائنا کی فوج پیپلز لبریشن آرمی نے تبتیوں پر فوج کشی کرکے فوجی کاروائی کے تحت ان کی آزادی اور خود مختیاری کو سلب کرلیا گیا ۔ اور اسے زبر دستی اور فوجی طاقت کے ذریعہ بلجبر چین کے ساتھ ضم کیا گیا۔ اگر چہ تبت کے عوام نے اس فوجی کاروائی کے خلاف مزاحمت کی۔مگر اپنی فوجی قوت کے بلبوتے پر ان کی تحریکوں کو وقتی طور پر کچل دیا گیا۔

تبت ایک آزاد اورمتنازعہ خطہ ہے۔ چین کے ساتھ اس کے الحاق کا کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور یہاں چین کے قبضہ کے روز اول سے آزادی کی تحریکیں جاری ہے۔”تبت“ جو اپنے مخصوص جغرافیائی خصوصیات کی وجہ سے دنیا کی ”چھت“کہا جاتاہے۔”تبت“یہ زمین کا انتہائی بلند ترین علاقہ ہے۔ اس سے آگے انسانی آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں دنیا ”کے ٹو“ اور ”ماؤنٹ ایورسٹ“میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔  یہ ایک عظیم بدھ ریاست ہے۔بدھ مت ایک روحانی فلسفہ یا مذہب ہے۔ جس کی بنیاد ہندوستان کے عظیم فلسفی گوتم بدھ نے رکھی تھی۔
تبت جس کی تاریخ بہت قدیم ہے، اور اس کی ریاستی حیثیت تاریخ میں 7ویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔ یہ نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے اہم حیثیت کا حامل ہے، بلکہ ثقافتی اور روحانی اعتبار سے بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

جہاں بدھ مت کی عبادات اور روایات کا آغاز ہوا تھا۔ یہاں دنیا کی بلند ترین پہاڑی سلسلہ  جیسے کوہ ہمالیہ پائے جاتے ہیں۔یہ اپنے بلندوبالا پہاڑی ماحول، برف پوش چوٹیوں،اور وسیع عریض میدانوں کی وجہ سے دنیا کی چھت کا لقب پایا۔

تبتی اب بھی خود کو چین کا اکائی یا حصہ نہیں سمجھتے۔ اور وہاں آزادی کی جدوجہد تادم موجود جاری ہے۔۔تبتی  سمجھتے ہیں کہ چین نے ان کی ان کی آزادی اور شناخت کو متاثر کی ہے۔ چین کے خلاف تبت اور تبت سے باہر آزادی کی تحریکیں اور احتجاجات جاری ہیں۔

1959دلائی لامہ کی قیادت میں چین کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ لڑی گئی۔ جو اب بھی نشیب و فراز کے ساتھ تسلسل  رکھتاہے  اس کے زیر قیادت تحریکوں نے چین کے تسلط کو عالمی سطح پر چیلنج کردیا ہے۔عالمی سطع پر تبت کی آزادی کے لئے آوازیں ا ٹھ رہی ہیں، اور کئی ممالک  بین الاقوامی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تبت کی آزادی کی حمایت میں چین کے پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اور اس وقت مختلف تبتی تنظیمیں بھی عالمی اور علاقائی سطح پر تبت کی آزادی کے لے سر گرم ہیں جن میں عالمی سطع پر
(international Tibet Network),Tibet Support GroupTibet Rights colletiv,,Free Tibetسمیت کئی دیگر تنظیمیں بین لاقوامی سطع پر چین کے تسلط اور انسانی حقوق کے پائمالیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر  احتجاج  اور مزاحمت کررہے ہیں۔ جبکہ تبت کے دیگر کئی تنظیمیں Tibetan InDependence Movement, Tibeten Youth Congressچین سے مکمل آزادی کے لئے نہ صرف داخلی طور پر متحرک اور فعال ہیں۔ بلکہ عالمی سطع پر بھی سرگرم عمل ہے۔اور اس کے علاوہ14 ویں ”دلائی لامہ“ کی زیر قیادت مختلف تنظیمیں تبت کی آزادی کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی فورمز پر آوازیں بلند کررہے ہیں۔ اور چین کی جانب سے تبتیوں کی نسل کشی کی اورانسانی حقوق کی پائمالیوں کی مذمت کررہے ہیں۔ دلائی لامہ ساٹھ کے دہائی میں آزادی کے اولین لڑائی کے دوراں بھارت جلاء وطن ہوئے تھے۔ اورا س وقت اس کی عمر اسی سال ہے۔لیکن وہ اپنی آزادی کے موقف پر کسی قسم کی سمجھوتہ کے حق میں نہیں ہے۔ اور وہ پر امن طریقے سے چین سے نجات کی جدوجہد میں عالمی سطع پر سیاسی اور سفارتی مشن پر کام کررہے ہیں۔

تبت میں آزادی کی جدوجہد محض مذہب یا روحانیت سے جڑی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قومی تحریک ہے۔ جس کا  مقصد تبتی قوم کی آزادی،  زبان،ثقافتی ورثہ اور قومی شناخت کو بچانا ہے۔

چین اور پاکستان تبت کی آزادی کی لڑائی کو محض مذہبی پابندیوں کے طور پر پیش کرکے وہاں کے زمینی حقیقت کو مسخ کررہے ہیں۔تبت کی آزادی کی جدوجہد صرف مذہبی آزادی نہیں، بلکہ اس سے کہیں ذیادہ ایک قومی اور سیاسی جدوجہد ہے۔

تبت مشرقی ترکستان کی طرح قدرتی وسائل سے مالا مال  اور چین کے مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اور چین کے لئے اس کی جغرافیائی اور قدرتی وسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔  اس سرزمین میں دنیا کے اہم قدرتی اور صنعتی ذخائر موجود ہیں۔تبت میں سونے چاندی تانبے،زنک لوہا کوئلہ، قدرتی گیس اور تیل کے وافر ذخائر ہیں۔ تبت کی جغرافیائی اہمیت اس کے قدرتی وسائل کے تناظر نے  چین کو وحشی بنادیاہے  جو تبت کے قدرتی وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹ کر اپنی معاشی طاقت اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لے استعمال

کررہاہے۔تبت کی زمین زرعی اور آبی لحاظ سے بھی اہم ہے۔یہ کئی اہم دریاؤں کا منبع ہے۔ یہ ایشیا کا ”واٹر ٹاور“ہے یہاں کی برفانی جھلیں
اور گلیشیئرزچین کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء اور مشرقی ایشیاء کے کئی ممالک کے لے پانی کا اہم زریعہ ہے۔ لیکن اس وقت چین تبت کے ان دریاوں کو اپنے کنٹرول میں لے کر چین کے مختلف حصوں تک پہنچانے کے لے بڑے منصوبے بنارہاہے۔

تبت میں سرگرم آزادی پسند قوتوں کا کہناہے۔ کہ پچھلے چھ دہائیوں سے چین کی جانب سے جاری ظلم و جبراور زیادتیوں کا تسلسل تبتی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہے۔ ان کا کہناہے کہ چین نے تبتی زبان، تعلیم اور قومی روایات وثقات پر سخت قسم کی پابندیاں لاگو کی ہے۔اور ”ہن چینی“ آبادکاری کی پالیسی کے ذریعہ تبتیوں کواقلیت کو میں تبدیل کررہی ہے۔اس کے علاوہ چینی سامراج پر امن احتجاجی مظاہرین کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا  رہاہے۔جن میں بشمول سٹیٹ فائرنگ، تشدد، تبتی جہد کاروں کو تشویش ناک سزائیں، قید وبند۔ ذہنی وجسمانی اذیت یہ چین کی جابرانہ پالیسیوں کا معمول ہے۔
”سٹوڈنٹ فار فری تبت“کے راہنماء”ڈاکٹر بی زیرنگ“  جو معروف تبتی دانشور،  رائٹر،محقق اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہے،کا کہناہے کہ  1959 سے لے کر آج تک ایک ملین سے زیادہ تبتیوں کو آزادی کے پاداش میں شہید کئے جا چکے ہیں، جب کہ ہزاروں قید و بند کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چین کے پہلے صدر ماؤزے کے دور میں تبت میں جارحانہ اقدامات شدت اختیار کر گئے۔اور اس دور میں ہزاروں تبتیوں کوشہید کیا گیا،اور انہیں غداری یا ”چینی کمیونسٹ پارٹی“کے خلاف سر گرمیوں کے الزام میں قتل کیا گیا۔ان کا کہناہے کہ تبتی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد میں کھبی پیچھے نہیں ہٹیں گے،چاہے چین کے جتنی جبر و ظلم کا سامناکرنا پڑے، انہوں نے تبت کی آزادی کے لئے عالمی سطع پر آواز اٹھائی ہے۔ او رعالمی دنیا سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ  چین کے حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ تبتیوں کو ان آزادی واپس مل سکے۔

گزشتہ ؎ دو دہائیوں سے چینی صنوعات کے عالمی سطع پر مقبولیت،برآمدات کے غیر معمولی اضافہ کاچر چا اپنی جگہ،لیکن چینی و پاکستانی ذرائع ابلاغ اور ان کے حواری چین کے اس ترقیاتی معجزے کو جس طرح پیش کررہے ہیں۔ جیسے کے چین نے دنیا کو حیران کردیاہے۔ لیکن  اگرچین کے گزشتہ دو دودہائیوں میں ”معجزاتی ترقی“ اورمعاشی طاقت کے اسباب کو تلاش کیا جائے تو یہ ایک غیر انسانی اور سامراجی نظام پر مبنی ہے جو انسانی حقوق کی پائمالی، قوموں کی آزادی پر قدغن، ان کے وسائل کے لوٹ،جبر وا ستحصال کے اندوہناک واقعات پر مشتمل ہے۔

اس نام نہاد ترقی کے پیچھے جبر و بر بریت کے تاریک پہلو پر پردہ نہیں ڈلا جاسکتا،جس کی بنیاد پر چین اپنی معاشی مفادات کی تکمیل کررہاہے۔  اس ترقی کے پیچھے کئی ایسے عوامل ہیں،جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ ترقی داخلی اقدامات یا آسمانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ ان کی کرشماتی قسمت کا نتیجہ ہے۔بلکہ اس کے پیچھے کئی متنازعہ خطوں پر قبضہ اور وسائل کی لوٹ مار شامل ہے۔ چین کا اچانک علاقائی طاقت سے عالمی قوت بننا کوئی معجزہ نہیں ہے۔ چین کے یہ ترقی صرف اقتصادی اصلا حات کا پیش خیمہ نہیں بلکہ یہ دنیا کے مختلف خطوں کے قدرتی وسائل کے لوٹ،اور انسانی حقوق کی پائمالی اور انسانی قتل عام کی قیمت پر آیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں، کہ گزشتہ دو عشروں سے چین کا بلوچستان میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور بلوچ قدرتی وسائل پر قابض ہونے کا عمل۔

بلخصوص سیندھک پروجیکٹ جیسے ”سونے کے پہاڑ“ کے معدنی ذخائرکے استحصال کابے رحمانہ پہلو، تانبے اور سونے کی کان کنی  چین موجودہ اقتصادی ترقی کی راہ میں ایندھن کی مانند ہے۔ایک اندازے کے مطابق سیندھک پروجیکٹ میں سونے اور تانبے کے کان کنی کی مالیت کا کل تخمینہ ایک ارب ہزار ڈالر تک ہوسکتی ہے۔

2002
سے تادم موجود جس کی پچاس فیصد یعنی50 ارب ہزار ڈالر تک چین استفادہ کرچکاہے۔ اور مزید معدنیات نکالنے کا عمل جاری ہے۔  چین کی سرمایہ کارانہ لوٹ مار صرف سیندھک تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر سونے اور تانبے کے علاوہ کوئلہ،سلیکا،سلفر، لیتھیم، نیوڈیمیئم، زنک، سن اسٹون،چاندی،پوئمک سٹون، گرینائٹ، کلسائیڈ اور وائٹ گولڈ ک سمیت  سینکڑوں اقسام کے معدنیات کی چوری میں ملوث ہے۔ اس سے نہ صرف بلوچستان سے چین کو قیمتی دھاتوں کی فراہمی ہورہی ہے۔۔بلکہ اس میں مقامی سردار، کٹھ پتلی پارلیمنٹ،سیاسی ایجنٹ، ساہوکار، پیشہ ور کاروباری دلا ل، الیکٹیبلز اور بڑے بڑے سمگلر  و سینیٹربھی اس لوٹ مار میں شامل ہے۔ اس قسم کے مختلف گروپس اور عناصر غیر قانونی طریقہ اور بلوچ مرضی و منشاء کے برخلاف سینکڑوں قسم کے معدنیات کی بڑی مقدار چین تک پہنچائے جانے میں سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

احتجاج کا 5707 دن ، گوادر میں کتاب کا اسٹال لگانے پر طلباء کی گرفتاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

بدھ جنوری 22 , 2025
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور  ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کو انصاف کی فراہمی کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5707 دن ہو گئے۔  سیبی سے سماجی کارکنان عبد الغنی سیلانی ، عمران بلوچ اور دھنی بخش سومرو نے کیمپ آکر جبری […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ