آج ( پیر ) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 5705 دن ہوگئے۔ شال پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے اور اس بات پر زور دینے کے لیے ہے کہ جبری گمشدگی کا خاتمہ کرکے جبری لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔
پیر کے روز باغبانہ خضدار سے سیاسی و سماجی کارکنان عبداللہ باجوئی ، نذیر احمد باجوئی اور الہی بخش جتک نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا جبری گمشدگی کی اذیت نے پورے بلوچ سماج کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جبری گمشدگیوں نے ہزاروں خاندان کو اندھیرے اور بے یقینی میں دھکیل دیا ہے۔ اجتماعی سزا کا یہ عمل ایک ایسا گہرا زخم بھر چکا ہے کہ آئندہ کئی دہائیوں تک اس کا بھرنا ممکن نہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی جڑیں پاکستانی حکمرانوں کی بلوچ وسائل ، زمین اور سماج پر قبضے کی خواہش میں پیوست ہے۔ کراچی میں ریاستی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے پر امن سیاسی و سماجی کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ گرفتار افراد کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات خارج کیے جائیں ، امن کا راستہ روکنے سے تشدد کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
انھوں نے کہا سن 2014 میں توتک سے 24 جنوری کو اجتماعی قبر ملی جس سے 16 لاشیں ملیں ان 16 لاشوں میں صرف دو افراد کی لاشوں کی شناخت ہوسکی ہے جو آوران کے رہائشی ہیں۔ ںصیر ولد بائیان اور قادر بخش ولد مسکین کو پاکستانی فوج نے جبری لاپتہ کیا تھا ۔ ان دو لاشوں سے ہی یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ توتک کے اجتماعی قبر سے ملنے والی لاشیں جبری لاپتہ افراد کی تھیں جنھیں ہمیشہ کے لیے گم کردیا گیا۔ ان کی لاشوں کو جان بوجھ کر ناقابل شناخت بنانے کے لیے ان پر چونا ڈالا گیا تھا۔ لیکن جب تک ایک بھی شخص جبری لاپتہ ہے ، چاہے ایک سال ہو یا سو سال ہم اس کی بازیابی اور اس کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر سوال اٹھاتے رہیں گے ، ریاست کو جواب دینا ہوگا۔
ماما قدیر نے کہا بلوچستان کے طول و عرض میں پاکستانی فورسز نے جرائم پیشہ افراد پال رکھے ہیں جنھوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ریاست کے پالے ہوئے ان ڈیتھ اسکواڈز سے لوگوں کی زندگیاں ، مال اور عزت محفوظ نہیں ۔