بلوچستان کا کتاب سے رشتہ تحریر:  مظہر بلوچ

کتاب سے نفرت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ کتاب احساس بیگانگی پیدا کرتا ہے اور احساس بیگانگی کسی ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہے۔


کتاب اور بلوچ کے رشتے کی بات کریں تو یقیناً بلوچ اور کتاب کی وہ سنگتی ہے جس سے بلوچستان کا هر کوچہ روشن ہے
اگر ایک قوم کے بطور ھم دیکھیں تو نا صرف بلوچستان میں کتاب دوستی میں اضافہ هوا ہے بلکہ بلوچ قوم منزل کی جانب بھی تیزی سے گامزن ہے۔

بلوچ جدوجہد میں نیا موڑ تب آتا ہے جب بلوچ نوجوان اس بات کو بھانپ جاتا ہے کہ اب کتاب سے رشتہ مضبوط کر کے ہی ھم اس سرزمین پر خود کو ایک قوم کی صورت میں زندہ رکھ سکیں گے بس پھر بلوچ نوجوان خاص کر بلوچ طلبہ نے بلوچستان کے مختلف جگہوں پر لائبریریاں بنائیں اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے خود عملی طور پر کتاب سے رشتہ مضبوط کر کے قوم کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دی ۔
پھر ان نوجوانوں سے ناصرف ریاستی دشمنی تیز ہوئی بلکہ انہی نوجوانوں کو لاپتہ تک کیا گیا خیر یہ تو بلوچستان میں معمول بن چکا ہے مگر یہ سر پھرے نوجوان نہ خوفزدہ ہوئے اور نہ ہی انہوں اپنے سفر کو چھوڑا بلکہ کتاب سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرتے رہے کیونکہ انہیں ادراک تھا کہ بغیر علم و شعور کے نا صرف اپنے قومی فرائض سے بیزار هوں گے بلکہ ہماری قومی شناخت بھی خطرے میں ہے۔

پھر بساک بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے بلوچستان بھر مختلف اوقات اور ایونٹس کے موقع پر کتاب اسٹالز لگاتی ہے مگر وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے بساک اس پروگرام کو سب سے بڑے تنظیمی پروگرامز میں شامل کرکے هر بلوچ کے ہاتھ میں کتاب دینے کا عہد کر لیتا ہے بس پھر بلوچستان بھر میں کتاب میلے شروع ہوتے ہیں مگر پہلے ہی دن سے بوکھلائی ہوئی ریاست اپنے آئین کو پاؤں تلے روند کر اسٹالز پر کھڑے طلبہ کی پروفائلنگ کرتا ہے اور انہیں ہراساں کرتا ہے شاید اس کے گمان میں یہ بات ہوگی کہ یہ ڈر جائیں گے مگر بلوچ نوجوان جو کہ ڈر کر ہی اتنے دلیر ہوچکے ہیں کہ ان کے لیے هر چیز معمولی ہے اور ان کی نظر صرف اپنے منزل پر ہے  جو کہ اس بات کو جانتے ہیں کہ راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔

مگر نہ رکنے کا وعده وہ کر چکے ہیں
دلچسپ کہانی ڈیرہ غازی خان کی ہے  جہاں بلوچستان کتاب کاروان سے کچھ دن قبل فکشن ھاؤس والے تین روزه کتاب اسٹال لگاتے یہی ادارے گویا انہیں پتہ ہی نہیں چلا مگر جونہی ڈیرہ غازی خان و تونسہ کے مختلف مقامات پر طلبہ اسٹال لگانے جاتے ہیں تو جبراً گرفتاریاں ہوتی ہیں اور زبردستی اسٹالز بند کروائے جاتے ہیں یہ نہایت حساس بات ہے کے ریاست بلوچ کو علم و شعور سے دور رکھنا چاہتی ہے جہاں بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے ھالات ھمارے سامنے ہیں ۔ وہیں کوہ سلیمان و ڈیرہ غازی خان میں اسکولز کو پرائيويٹ کرکے ھمیں جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس سے نا صرف ہماری آنے والی نسلیں غیر تعلیم یافتہ هوں گی بلکہ ھمارا مستقبل تباہ ہوگا ۔

مگر خوشی علم دوستی کو دیکھ کر ہوتی جب لیاری کے اس بچے کی تصویر میرے سامنے آئی تو جو دس روپے ہاتھ میں لیکر کتاب لینے پر بضد  تھا یہی واقعہ بیروٹ مندوانی کے اسٹال پر بھی هوا جہاں ایک چوتھی کلاس کا بچہ بیس روپے ہاتھ میں دے کر گام کی طرف اشاره کرتا ہے کہ مجھے یہ کتاب چاہیے ایک اور خوبصورت واقع جب ایک بوڑھی عورت اسٹال پر آ کے کہتی ہے کہ مجھے ایک کتاب چاہیے اور کتاب لیے بنا میں نہیں جاؤں گی تو وہ ان پڑھ هو کر بھی کتاب کی اھمیت جانتے ہیں۔
ہمیں کتاب سے رشتہ مزید مضبوط کرکے اس خوفزدہ ریاست کو یہ بتانا هو گا کہ ھم قومی محکومیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مزید مضبوطی کے ساتھ سفر کریں گے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وی بی ایم پی احتجاج کا 5705 دن ، توتک کی اجتماعی قبروں سے ملنے والی 16 لاشوں سے دو کی شناخت ہوئی ، جو جبری لاپتہ تھے۔ ماما قدیر

پیر جنوری 20 , 2025
آج ( پیر ) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 5705 دن ہوگئے۔ شال پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے  اور اس بات پر زور دینے کے لیے ہے کہ جبری گمشدگی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ