مزاحمت کا ستون: بلوچ قومی جدوجہد سے 50 سالہ وابستگی

تحریر: مھلب کمبر بلوچ

میرے بابا، استاد واحد کمبر، اسکول کے زمانے سے ہی قومی شعور رکھتے تھے۔ جب وہ کراچی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، تو وہ محض ایک عام طالب علم نہیں تھے بلکہ ایک بصیرت رکھنے والے قومی جہدکار کی طرح اپنے مشن پر کاربند تھے۔ ان کے لیے تعلیم محض ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ ایک ایسا راستہ تھی جس کے ذریعے وہ خود کو قومی حقوق کی جدوجہد کے لیے تیار اور اہل بنا سکیں۔

یہی وہ سوچ تھی جس نے میرے بابا کو ہمیشہ بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم و ستم اور سفاکیت کے خلاف مضطرب رکھا۔ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے زمانے میں ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ علم کو اس پختہ عزم کے ساتھ حاصل کریں گے تاکہ اپنی قومی مزاحمت کا ایک ستون بن سکیں۔

میرے بابا کی زندگی میں 1970 کی دہائی ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ انہوں نے بلوچ طلبہ سیاست میں شمولیت اختیار کی اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد نے بلوچ نوجوانوں میں سیاسی شعور کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ انہی کاوشوں نے نوجوانوں میں مزاحمت اور آگاہی کا احساس اجاگر کیا۔ تاریخ میں ماسٹرز ڈگری اور ایک مضبوط سیاسی وژن کے ساتھ، وہ مکران واپس آئے اور اپنی مزاحمتی سوچ کو پورے بلوچستان میں پھیلانے لگے۔

ایک استاد اور معلم کی حیثیت سے واحد کمبر کی اپنی قوم کے لیے وابستگی سیاست تک محدود نہیں تھی۔ انہوں نے کئی سالوں تک تمپ میں استاد کی حیثیت سے اپنی قوم کے بچوں کو مفت تعلیم دی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ، وہ اپنی سیاسی جدوجہد کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی دوران، انہیں "استاد” کا لقب دیا گیا، جو ان کی نوجوانوں کو تعلیم اور قومی شعور دینے کی گہری لگن کا عکاس ہے۔

1980 کی دہائی کے اوائل تک، استاد واحد کمبر کی سیاسی سرگرمیاں بلوچستان کے مختلف علاقوں تک پھیل چکی تھیں۔ انہوں نے بلوچ وسائل کے استحصال اور اپنی قوم کو درپیش منظم جبر کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے ملاقاتوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا۔ استاد واحد کمبر کا پختہ یقین تھا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مزاحمت ہے۔اس قابض کے خلاف مزاحمت جو بلوچ قوم کی شناخت اور حقوق کو مٹانے کی واضح کوشش کر رہا تھا۔

ہمارے بابا کی ترجیحات ابتدا سے ہی واضح تھیں، سب سے پہلے قومی بقا اور قومی شناخت۔ انہوں نے ان دونوں کی حفاظت کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جسے اکثر لوگوں نے "دیوانہ پن” قرار دیا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں، جب عام لوگ سیاسی معاملات سے کٹے ہوئے تھے اور سیاست موقع پرستوں کے قبضے میں تھی لیکن بلوچستان کے لیے واحد کمبر کی غیر متزلزل وابستگی نے ان تمام خیالات کو غلط ثابت کر دیا۔

آج بھی، پیرانہ سالہ اور متعدد امراض کے باوجود ہمارے بابا اپنی قوم کی کھوئی ہوئی شناخت بحال کرنے کے مشن پر ثابت قدم ہیں۔ ان کا سفر، جسے استقامت، جدوجہد اور قربانی کا عملی نمونہ ہے، بلوچ قوم کے لیے امید اور مزاحمت کی ایک دائمی علامت کے طور پر قائم رہے گا۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے بہادر بابا زندان میں بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بی ایل ایف کے ماہانہ مگزین “اسپر” کا چوتھا شمارہ شائع

ہفتہ جنوری 11 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ماہانہ میگزین اسپر کا چوتھا شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ اس حوالے بی ایل ایف نے بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے تحت آشوب پبلیکیشن کی جانب سے بلوچ سرمچاروں اور بلوچ نوجوانوں کی سیاسی و نظریاتی تربیت کے لئے ماہنامہ اسپر کا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ