کون سا نیشنل؟

تحریر :- سہیل احمد

ایم پی اے آواران نیشنل پارٹی کے خیرجان بلوچ ریکارڈ کی گئی ایک مزمتی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ملک دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا زہری واقعے کی مزمت کرتا ہوں. ویڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے.

کوئی بھی ملک جو دنیا کے کسی بھی براعظم اور خطے میں واقع ہو اس کے سیکورٹی ادارے چاہے جتنے مضبوط ہوں وہ سینہ ٹھونک کر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہم کسی سرحدی یا داخلی تنازعے کا متحمل ہو سکتے ہیں . گھسی پٹی الفاظ کو طوطے کی طرح رٹنا اور ریاستی زبان میں گردان اگر کسی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی گئی پارٹی کا کوئی عہدیدار یا ایم پی اے ادا کرتا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی لیکن موصوف کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ وہ بی ایس او کے 97- 1995 کے دوران چیرمین رہے ہیں.

کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ نیشنل پارٹی بھی تو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہے مان لیتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے نطفے سے براہ راست جنم لینے والوں میں فنکشنل لیگ، ق لیگ، باپ پارٹی اور بہت سے دوسرے شامل ہیں خیر جان بلوچ کی پارٹی نیشنل پارٹی خیر سے ہنوز اپنے آپ کو نیشنلسٹ پارٹی ہی گردانتی ہے. نیشنلسٹ پارٹی ہونے کے اس دعوے کی تھوڑی سی لاج رکھتے ہوئے پیاز کے چھلکے جیسا پردہ اوڑھ لیتے تو بہتر تھا.

 نیشنل پارٹی کے ایک معتبر قبائلی رہنماء جو بعد میں نیشنل پارٹی چھوڑ گئے اور اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست ہمنوا بنے سگار پیتے بلوچستان کے چی گویرا بنے ہوئے ہوتے ہیں نے ایک الیکشن میں اپنے کاغزات جمع کر دیئے اس وقت تک  نیشنل پارٹی نے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا تھا .راوی کہتے ہیں کہ پارٹی کے ایک عہدیدار کو جب اس معتبر نے کہا کہ میں نے اپنے حلقے سے کاغزات جمع کر دیئے ہیں تو اس عہدیدار نے انھیں اچھے الفاظ میں پند و نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واجہ تہو وت ارا گراں بدار، خیر جان بلوچ کی بدنصیبی کہ ویڈیو ریکارڈ کراتے وقت شاید اس کے پاس کوئی ایسا خیرخواہ بھی نہیں تھا کہ اسے کہتا کہ واجہ وت آ را کمو گراں بدار.

وزیرداخلہ تم نہیں ہو کہ ضیاء لانگو کیطرح سبز جھنڈے کو لپیٹ کر کہہ دیتے کہ ملک دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا بعد میں بلے کسی چور دروازے سے اپنی بات کسی کے گوش گزار کرتے کہ کوئلے کے بیوپار ہیں تو ہاتھ اور منہ کالے ضرور ہوتے ہیں شاید اگلے آپ کی اس عذر کو بھی قبول کرلیتے.

اب بخوبی سمجھ آجاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ایک پالتو قدوس بزنجو کو پیچھے دھکیل کر ایک اور پالتو خیر جان بلوچ کو سامنے کیوں لا کھڑا کیا. اس لیے کہ یہ بہتر مہرے اور کٹھ پتلی ہیں شاید آنگن ٹیڑھے ہونے کی شکایت بھی نہ کرے اور نچدا پھرے اور ممکن ہے کہ کلاسیکل کتھک میں مہارت رکھتے ہوں.

خیر جان بلوچ جب مشرف دور میں ضلع آواران کے چیرمین تھے تو مشرف نے انھیں گلے لگاتے ہوئے کہا تھا کہ خیر جان میرے بیٹے جیسے ہیں. اب خیر جان کو جنرل کے اس گفت کو سچا ثابت کرنے کا موقع ہاتھ لگا ہے.

کہتے ہیں کہ نواب مری جب کابل میں جلا وطن تھے تو ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند مرتضیٰ بھٹو جن کی گزین مری سے دوستی تھی گزین سے ملنے آئے تو بیا بخیر کے لیے نواب صاحب بھی ملنے گئے دوران گفتگو مرتضیٰ بار بار کہتے رہے پیپلز پارٹی، نواب صاحب کہتے ہیں کہ خیال آیا کہ پوچھوں کہ کونسا پیلپز پارٹی کیسا پیپلز کس کا پیپلز پارٹی، پھر مناسب نہیں سمجھا کہ مہمان ہے چند منٹ کے لئے آیا ہے تو کہنا مناسب نہیں.

تو نیشنل پارٹی کے چار ستارے، مضبوط فیڈریشن کے مطالبوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کونسا نیشنل کس کا نیشنل کیسا نیشنل؟

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کولپور مرکزی شاہراہ کی رات گئےمسلح افراد نے ناکہ بندی کی، فورسز اسلحہ ضبط، فیکٹری نذر آتش کردیا

جمعہ جنوری 10 , 2025
کچھی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے کولپور میں  مرکزی شاہراہ پر رات گئے مسلح افراد نے  گھنٹوں تک ناکہ بندی کی ، لیویز فورس کا اسلحہ ضبط کرلی  دوسری جانب سیمنٹ فیکٹری کی مشینری کو  نذر آتش کردیا ۔ اطلاعات کے مطابق رات گئے مسلح […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ