ایران کی عدالت عظمیٰ نے گلستان صوبے کے شہر رشت میں ایک نو رکنی خاندان کو 29 ماہ تک یرغمال بنانے کی تصدیق کی ہے۔
رشت کے پراسیکیوٹر فلاح میری نے بتایا کہ یہ یرغمال گیری دسمبر 2021 میں شروع ہوئی تھی لیکن عوامی رپورٹس کے ایک گھنٹے بعد اور سیکیورٹی فورسز کی مداخلت سے ختم ہوئی۔
ایرانی عدالت کی رپورٹ کے مطابق، یرغمال گیر دو بھائی اور ایک خاتون تھے جو سزا سے بچنے کے لیے رشت میں روپوش تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یرغمال گیروں کو ہشتگرد کی عدالت نے آٹھ سال کی قید کی سزا سنائی تھی لیکن وہ فرار ہو کر رشت آ گئے اور وہاں پر خفیہ طور پر رہائش پذیر تھے۔
رشت کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ یرغمال گیر خاتون رشت میں ایک امیر خاندان سے واقف تھی۔ خاندان کا سربراہ وکیل تھا اور یہ خاتون اس کی والدہ سے کئی سالوں سے رابطے میں تھی۔
میری کا کہنا ہے کہ اس خاتون نے خاندان کے تمام افراد کی شناخت کر لی تھی۔
مرتضی علم خواہ، ان کی اہلیہ اور تین بچے (7.5، 14.5 اور 19 سال کے)، بھابھی، بہن بیوی، ساس اور سسر وہ لوگ تھے جو 29 ماہ تک یرغمال رہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ واقعہ اس وقت شروع ہوا جب یرغمال کرنے والی خاتون نے خاندان کے ساتھ واقفیت کا فائدہ اٹھا کر وکیل کی بیوی اور ان کی ساس کو اپنے گھر لایا جہاں انھوں نے انھیں اپنے بھائیوں سے متعارف کرایا اور انھیں زہریلے جوس سے بے ہوش کر دیا۔
رشت کے پراسیکیوٹر کے مطابق، یرغمال گیروں نے بعد میں ساس کے موبائل سے پیغام بھیج کر شوہر کو بلایا کہ اس کی ساس کی طبیعت خراب ہے۔ جب وہ آیا تو اسے بھی یرغمال بنا لیا۔
بے ہوش ہونے کے بعد، یرغمال گیر خاتون نے کورونا وائرس کے بہانے تین بچوں کو بھی بے ہوش کرنے والی گولیاں دیں اور باقی خاندان کو اپنے دو منزلہ گھر میں منتقل کر دیا، جہاں سے یرغمال گیری کا آغاز ہوا۔
رپورٹس کے مطابق، یرغمال گیروں نے ہر وقت خاندان کو ان ہی کے دو منزلہ گھر میں رکھا، جو رشت کے منظریہ علاقے میں واقع ہے جو امیر علاقوں میں سے ایک ہے۔
ایرانی میڈیا نے بتایا کہ خاندان کے والدین، تین بچوں اور چار دیگر قریبی رشتہ داروں کو 29 ماہ تک نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مرتضی علم خواہ، ان کی اہلیہ اور بھابھی نے نورنیوز سے بات کرتے ہوئے اس سخت یرغمال گیری اور تشدد کے بارے میں بتایا۔
"یرغمال گیروں کی سربراہ خاتون ہماری واقف تھی۔ میری ساس سالوں سے اس کے گھر میں مذہبی تقریبات کرتی تھیں۔”
مرتضی علم خواہ، جو خاندان کے سربراہ اور وکیل ہیں، نے تشدد اور دباؤ کے بارے میں بتایا میں جب ہوش میں آیا تو دیکھا کہ ہم سب نو لوگ اپنے ہی گھر کے کمرے میں ہیں۔ ہمارے موبائل چھین لیے گئے تھے اور ہمیں سخت نفسیاتی اور نیند کی گولیاں دی جاتی تھیں جس سے میری بیوی کی حالت بگڑ رہی تھی۔
انھوں نے کہ ہر ایک کو الگ الگ بیلٹ بینڈ اور زنجیروں سے باندھا گیا تھا اور ہم ہر روز 17 گھنٹے سوتے رہتے تھے۔ جب ہوش آتا تھا تو کچھ کھانا دیا جاتا اور تشدد کی دھمکی دے کر زبردستی کھانا کھلایا جاتا۔
یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آئی جب عوامی ملاقات کے دوران ایک شخص نے حکام کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ بعد ازاں، پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے یرغمالی خاندان کو بازیاب کرایا۔