روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک خطرناک مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ انھوں نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ واشنگٹن نے عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور مصنوعی تقسیم پیدا کرکے مشرق وسطیٰ میں حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔

اس سے قبل ترک وزیر خارجہ ھاکان فیدان نے بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
فرانس 24 نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فیدان نے کہا کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان فوجی تصادم کے امکان پر ’’ شدید پریشان‘‘ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ علاقائی پیشرفت اور ایران کی داخلی کمزوری کے پیش نظر، اسلامی جمہوریہ پر اسرائیلی حملے کا امکان موجود ہے۔
7 اکتوبر کو حماس کے مہلک حملے کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیل نے ایران کے حامی گروپوں ( جھنیں ایران محور مزاحمت کہتا ہے ) کو کمزور کرنے اور تھران کے علاقائی اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لبنان میں حماس اور حزب اللہ کی کمزوری، شام میں بشار الاسد کی حکومت کے زوال، اور تھران کے اثر و رسوخ میں کمی کے بعد اسرائیل نے یمن میں حوثی گروپوں پر حملے بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 25 دسمبر کو کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے اسرائیل کی طاقت کو ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’ شام، لبنان، اور غزہ اب اپنی سابقہ حیثیت میں نہیں رہے، اور ایران، جو اس محور کا سربراہ ہے، بھی اپنی سابقہ حیثیت کھو چکا ہے۔‘‘
ترک وزیر خارجہ فیدان نے زور دیا کہ ایران اسرائیل کے ساتھ کسی جنگ کا خواہاں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا، ’’ ایرانی حکومت کسی بڑے تصادم سے گریز کرنا چاہتی ہے۔ میں نے یہ معلومات براہ راست اپنے ایرانی دوستوں سے حاصل کی ہیں۔‘‘
10 اکتوبر کی شام، ایرانی حکومت نے اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائل داغے، جو اسرائیل پر ایران کا دوسرا براہ راست حملہ تھا۔ اس کے جواب میں، 5 نومبر کی صبح اسرائیلی افواج نے ایران کے درجنوں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازع کی عکاس ہے، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی خطے میں امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔