جبری لاپتہ افراد اور بلوچ شہداء کو اںصاف کی فراہمی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ کے 5684دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او ( پجار ) کے سابقہ چیئرمین زبیر بلوچ نے اپنے ساتھیوں سمیت کیمپ آکر اظہار یکجہتی کیا۔
انھوں نے کہا جبری گمشدگی سے سب سے زیادہ نوجوان اور طالب علم متاثر ہیں ، روزانہ کی بنیاد پر طالب علموں کو دوران سفر اور تعلیمی اداروں سے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کیا جاتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عزم استحکام آپریشن کے اعلان کے بعد بلوچستان میں فورسز کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور انسانی حقوق کی صورتحال بدتر ہوچکی ہے۔ ماورائے عدالت گرفتاریوں اور حراست میں جبری گمشدگیوں اور دوران حراست تشدد کرکے قتل کے واقعات نے بے چینی کی لہر میں اضافہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا بلوچستان کے طول و عرض میں لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے سڑکوں پر موجود ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ انتظامیہ مظاہرین کے جائز مطالبات سننے کی بجائے ان کو دبانے کے لیے تشدد پر مزید تشدد کا سہارہ لے رہی ہے جو آگ پر تیل چڑھکنے کے مترادف ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا گوادر کے گاؤں پانوان کو پاکستانی فورسز گذشتہ رات سے محاصرے میں لے کر اب اب تک کم ازکم 8 افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں صمید ، زھیر ولد حسن ، عمران ولد محمد ، حسن ولد عزیز ، پیرجان ، لیاقت سروزی اور ان کا ایک بیٹا شامل ہیں۔ دازن کے رہائشی ظریف ولد ھومر اور نوید کے حراستی قتل کے بعد ضلع کلات سے عبدالعلیم ولد غلام محمد سکنہ خزینہ کو پولیس حراست میں قتل کیا گیا، لواحقین سڑکوں پر انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے بھی دن بدن سرگرمیاں مشکل ہوتی جا رہی ہیں لیکن ہم اس صورتحال کا مقابلہ کریں گے اور ان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔