جراتِ بغاوت

تحریر: مھلب اے ندیم

سنہرے اور اونچے پہاڑوں کے درمیان بہتی سونے جیسی ندیاں، سُرمئی نوکیلے برف پوش پہاڑ جنہیں دیکھ کر آنکھوں کو سکون ملتا ہے، اور چرواہوں کے جلائے گئے الاؤ جو اس تاریک اور سنسان رات میں ان کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔ ہرنی اور اس کے بچوں کے جُھنڈ، درختِ گوْن کی نازک ٹہنیاں، کھیتوں میں گندم کی مہک، صحرا کی ریت کا بے خوف اُڑان، اور آسمان پر ٹمٹماتے ستارے جو آزادانہ چمک رہے ہیں۔ پرندوں کے گیت اور ہوا کی سُریلی دھن کے ساتھ گواڑخ، یاسمین، اور جور کے پھول رقصاں نظر آتے ہیں۔

‎ اس نے اپنی ڈائری کے پہلے صفحے پر اپنے وطن سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا اور ان خاموش پنوں پر اپنے وطن کے نظارے لفظوں کی صورت سجا دیے۔ دوسرے صفحے پر اس کے ذہن میں اپنے گاؤں کی یادیں جاگ اٹھیں—وہ گاؤں جہاں کی کئی صبحیں بے بسی کی کہانیوں سے بھری تھیں۔ غربت میں خالی پیٹ بچوں کے رونے کی آوازیں، اور مائیں جو انہیں تسلی دیتی تھیں، "کل تمہارے بابا آئیں گے اور ہمارے لیے کھانے کا سامان لائیں گے۔” لیکن ان ماؤں کو معلوم تھا کہ یہ جھوٹے دلاسے ہیں، کیونکہ وہ بابا کہیں دور دو وقت کی روٹی کمانے نہیں گیا تھا جو مہینوں بعد لوٹ آتا۔ وہ تو اٹھایا گیا تھا، اور اٹھانے والوں کو بھی نہیں معلوم کہ وہ اب کہاں ہے۔ ایک نہتی ماں کو اس کا کیا علم ہوگا؟
اور وہ شہید کا بچہ؟ اس کی معصوم آنکھیں سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ جب بھی ان آنکھوں میں دیکھو، سو سوال اٹھتے ہیں۔ "کیا وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ، وہ سڑی گلی لاش میرے بابا کی تھی؟” وہ خود سے لڑنے لگتا ہے۔ "نہیں، وہ بابا نہیں ہو سکتے! میرے بابا تو کتنے پیارے ہیں: ان کی روشن آنکھیں، نرم بال، مضبوط کندھے۔ اور سب کہتے ہیں کہ میں ان جیسا لگتا ہوں۔ وہ لاش تو کہیں سے بھی میرے جیسی نہیں تھی!” خود کو تسلی دیتے ہوئے وہ بار بار دہراتا ہے، "وہ لاش تو بابا کی تھی ہی نہیں۔”

میرے گھر کے بالکل سامنے ایک بہت پرانی جھونپڑی ہے، جس میں ایک بوڑھی ماں رہتی ہے۔ دس سال سے وہ سورج کی پہلی کرن طلوع ہونے سے پہلے اٹھتی ہے اور ہمارے گاؤں سے تھوڑی دور کچی سڑک کے کنارے جا کر اپنے بیٹے کی راہ تکتی ہے۔ جب سورج آسمان کے بیچوں بیچ پہنچ کر اپنی تیز اور بے رحم تپش سے اس کا سر جلاتا ہے، تو وہ مایوس ہو کر واپس گھر لوٹ آتی ہے۔ لیکن جب سورج آہستہ آہستہ غروب ہونے کو پہاڑوں کی نوک پر پہنچتا ہے، تو اس کی کمزور آنکھوں میں امید کی ایک چمک جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اپنا چاگل اٹھاتی ہے اور اسی سنسان سڑک کے کنارے بیٹھ کر شام پڑنے تک اپنے لخت جگر کی راہ تکتی رہتی ہے۔
اگر اس سے پوچھو تو وہ کہتی ہے، "دس سال پہلے اسی سڑک پر ایک پک اپ گاڑی آئی تھی۔ میں نے اپنے بیٹے کو اس پر سوار کرکے پڑھنے بھیجا تھا۔ جانتے ہو، اس کی پڑھائی کے لیے میں نے کیسے پیسے جمع کیے تھے؟” پھر وہ ذرا سا مسکراتی ہے اور اپنے لرزتے خشک ہونٹوں کو دانتوں کے درمیان چبانے لگتی ہے۔ "تگرد بنا کر بیچے تھے میں نے۔ پڑھنے بھیجا تھا اسے، لیکن وہ کبھی لوٹا ہی نہیں۔ میرے بغیر وہ پل بھر چین نہیں لیتا تھا۔ ممتا کی شفقت سے دور وہ کتنا ویران رہتا ہوگا!”

آہ بھرتے ہوئے وہ خاموش ہو جاتی ہے۔ یہی ہیں وہ ویران چہرے، یہی ہیں وہ خاموش آنکھیں جن میں سوالوں کے سیلاب تھمتے نہیں۔ یہ کمزور آنکھوں والی، کمزور ہاتھوں والی اور بے سہارا بوڑھی ماں، جس کے کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار نے میرے دل کو جھنجھوڑ دیا۔ یہی سوچتے ہوئے، میں نے پہاڑوں کا رخ کر لیا۔
انہی خیالات میں گم، میری آنکھ لگ گئی۔ جیسے کوئی ننھا بچہ اپنی ماں کی گود میں بے خوف سو جاتا ہے، ویسے ہی میں اپنی مادرِ وطن کی گود میں، اس کی شفقت کے سائے میں، ہر خوف سے بے خبر نیند کی وادی میں اتر گیا۔

جب وہ جاگا تو اس نے اپنے ذہن پر چھائے خیالات کا بھاری بوجھ محسوس کیا۔ اسے اپنے گاؤں کا وہ واحد معلم یاد آیا، جو اس کے لیے ایک روشنی کا مینار تھا۔ اس نے اپنا ڈائری بیگ سے نکالا اور اپنے استاد کے قصے اپنی کاغذی دوست کے ساتھ بانٹنے لگا۔
"میرا استاد، جس کے خیالوں کی روشنی سے میرا گاؤں مہک اٹھا تھا۔ وہ کتابوں کا عاشق تھا، جو بلوچستان کے نظاروں میں کھو کر من ہی من مسکراتا تھا، جیسے کوئی عاشق اپنے معشوق کے خیال میں مسکرا اٹھے۔ وہ بھی تو ایک عاشق تھا—کسی درویشِ خدا کی مانند، جو اپنے مادرِ وطن کی محبت میں رقصاں تھا۔ وہ لفظوں کو موتیوں کی مانند پروتا اور اپنے وطن کے لیے غزلوں کی تسبیح پڑھتا۔ وہ ہمیشہ ہمیں اپنے وطن کے سونے چاندی کی ندیوں اور سُرمئی پہاڑوں کی کہانیاں سناتا۔ وہ ہمیں بتاتا کہ اس سرزمین کو بنانے والے نے کس قدر مہربانی اور دنیا و جہاں کی آسائشوں سے اسے نوازا ہے۔”

ایک دن، اسکول سے گھر جاتے ہوئے، راستے میں وردی پوش ظالموں نے ان کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے گاؤں کو علم کی روشنی سے محروم کر دیا گیا۔ وہ سچ ہی تو کہتے تھے کہ بنانے والے نے میرے وطن کو بے حد خوبصورتی سے نوازا ہے۔ اور اس خوبصورتی سے بڑھ کر، اسے ایسے وارث عطا کیے ہیں جو اپنی سرزمین کے لیے جان نچھاور کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ مائیں ہیں جو اپنے بیٹوں کو وطن پر قربان ہونے کی نصیحتیں دیتی ہیں، اور یہ وہ بیٹے ہیں جو اپنی ماؤں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم رکھتے ہیں۔
جب کبھی بلوچستان کی پہاڑیوں کے کسی دور افتادہ گِدان میں ایک بلوچ بچہ جنم لیتا ہے، تو اس کے جھولے کے سرہانے بیٹھی ماں اپنی لوری میں اسے وطن پر مر مٹنے والے بہادروں کے قصے سناتی ہے۔ وہ اسے اپنے ملک پر قابض دشمن سے نفرت کرنا اور اپنے وطن کے ذرے ذرے سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ وہ اسے کہتی ہے، "میں نے تمہیں جنم دیا، لیکن یہ مٹی تمہاری اصل ماں ہے۔”
وہ سوچنے لگا: کیا لکھوں کہ میرا دیس کتنا خوبصورت ہے؟ قاضی کے خیالات جیسا، عطا کے اشعار جیسا، اور مرید کی غزلوں جیسا۔ اس خوبصورتی کی مورت پر ایک جان نثار کرنا کافی نہیں لگتا۔ کاش میں دو سو بار جنم لیتا اور ہر بار خود کو اس سرزمین پر قربان کر دیتا۔
یہ خیالات اس کے دل و دماغ میں گردش کرنے لگے، اور وہ انہیں اپنی ڈائری میں محفوظ کرنے کی خواہش کرنے لگا، جیسے دھندلا ہونے سے پہلے کوئی منظر قید کرنا چاہتا ہو۔ جیسے ہی اس نے اپنے قلم کی رفتار بڑھائی، اسے اپنے ساتھیوں میں سے کسی نے پکارا۔ وہ سب ایک گروہ کی صورت اس کے انتظار میں جمع تھے، اور جب انہوں نے اسے آتا دیکھا، تو ایک نے باقی سب کو آگاہ کر دیا۔
"وہ دیکھو، سلال آ گیا!”
وہ اپنے اگلے منزل کا تعین کر رہے تھے، سوچ رہے تھے کہ بلوچستان کے کس خوبصورت علاقے کا دورہ کریں گے۔ اور سلال سے بہتر بلوچستان کے کونے کونے کو جاننے والا کوئی اور نہیں تھا۔ اس سے مشورہ کرنے کے بعد سب اپنے موٹرسائیکلوں پر سوار ہوئے اور سفر پر روانہ ہو گئے۔
بلوچستان کے پہاڑی علاقے واقعی خوبصورتی کی مثال ہیں، جہاں دن کے اجالے میں سڑکیں رہنمائی کرتی ہیں اور رات کے سائے پہاڑوں کو پراسراریت کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔ لیکن ان مسافروں کو اندھیرے سے کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ پہاڑ، یہ رات کے سایے، اور یہاں کے خطرناک بھیڑیے بھی انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
سفر کے دوران وہ استراحت کے لیے رکے، اور سلال کو اپنی ڈائری کے صفحات سجانے کا موقع مل گیا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے تھوڑی دور، ایک پیڑو (وائلڈ چیری) کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وقت ضائع کیے بغیر، اس نے اپنی ڈائری نکالی اور اپنے خیالات کو الفاظ کی قید میں ڈالنے لگا۔

جس مٹی میں لہو کی خوشبو بسی ہوئی ہو، اسے مرید محبت سے "حانل” کہتا ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں بہادر بلوچ جنم لیتے ہیں، اور جس کی خاک خوشبوئے مِسک کی مانند ہے۔ یہ چاندنی، جو میرے وطن کی تاریخ کے پنون کی معشوقہ ہے، اور اس کے باسی، جو اندھیری راتوں میں اشعار سجاتے ہیں، مہکتی چاند سے محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مہر و محبت کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں اور اپنی سرزمین پر فدا ہو جانے والے بہادر ہیں، جن پر وطن کو ہمیشہ ناز رہے گا۔

‎ میں ان پہاڑوں میں خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتا ہوں۔ مجھے بلوچستان کے ذرے ذرے سے محبت ہے۔
میری بد نصیبی کا عالم دیکھو کہ میرا مادرِ زمین کسی بے مذہب اور بے تہذیب نمرود کے قبضے کا شکار ہے۔ چالبازیوں میں ماہر، وہ خود کو خدا سمجھنے والے فرعون کی نسل لگتا ہے۔ نفرتیں پھیلاتے ہوئے، ہمارے گھر جلاتے ہوئے، گولیاں برساتے ہوئے، اور بھائیوں کو اٹھاتے ہوئے، اس نے میری سرزمین کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
میرے انمول خاک کی زندگی کو اس نے دھوپ کی سخت کرن بنا دیا ہے۔ اس کے بچوں کی سوچوں پر خوف کا گھیرا ڈال دیا ہے۔

اس کی شامیں تاریک اور راستے کٹھن کر دیے گئے ہیں۔ اندھیری رات کے جکڑ میں آنے کے خوف نے اس کے پرندوں کو آزاد آسمان میں سجے ستاروں سے محبت کرنے نہیں دیا۔ وہاں کی یکتا چاند مدتوں سے وہاں بسنے والی قومِ عظیم سے خفا بیٹھی تھی، مگر اب مزید نہیں۔ اب اس سرزمین کے حقیقی وارث بغاوت پر اتر آئے ہیں، مجھ سمیت۔ اس مادرِ وطن کے ہر فرزند نے جراتِ بغاوت کا اعلان کر دیا ہے۔

جب تک میرے ہاتھوں میں دم ہے اور میری بندوق کی میگزین بھری ہوئی ہے، میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان پہاڑوں میں کسی سرگرداں درویش کی مانند، اس کا رکھوالہ بن کر گھومتا رہوں گا۔ وہ دن دور نہیں جب یہ سرزمین گل و گلزار ہوگی۔ اس کے فرزند نمرود و فرعون کی اس نسل کو مات دے چکے ہوں گے، اور پھر بلوچ چاندنی پر غزلیں لکھی جائیں گی۔ میرے سرزمین کے آسمان پر پرندے بے خوف اڑان بھریں گے، اور اندھیری رات میں سجے ستاروں سے محبت کریں گے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

چابھار، کنرک اور دشتیاری میں ڈینگی کا خطرہ، انسدادی اقدامات میں تیزی 

ہفتہ دسمبر 28 , 2024
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، چابھار، کنرک اور دشتیاری کے علاقے ان دنوں ’’ایڈس مچھر کے حملے اور خطرناک ڈینگی بخار کی بیماری کے پھیلاؤ ‘‘ کے چیلنج سے دوچار ہیں۔ ان علاقوں میں 800 سے زائد مقامات کو مچھر کی افزائش کے مراکز کے طور پر شناخت کیا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ