نور اللہ نوری، سرحدات، اقوام و قبائل کی وزارت کے سرپرست، جو پکتیکا کے برمل ضلع میں پاکستان کے فضائی حملے کی تحقیقات کے لیے گئے تھے، نے کہا ہے کہ اس واقعے کے تمام متاثرین عام شہری ہیں۔
سرپرست وزارت سرحدات، اقوام و قبائل نے پاکستان کے اس ضلع پر فضائی حملوں کو افغانستان کی سرزمین پر واضح تجاوز قرار دیا۔
نور اللہ نوری کے مطابق، پاکستان کے فضائی حملوں میں وزیرستانی مہاجرین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد پاکستان کے اس حملے کو بغیر جواب نہیں چھوڑا جائے گا۔
سرپرست وزارت سرحدات، اقوام و قبائل نے مزید کہا کہ اس واقعے کی تحقیق کرنی ہوگی کہ ان حملوں کے مقاصد کیا تھے، یہ معاملہ واضح ہو جائے گا۔
نور اللہ نوری کے مطابق، اس واقعے میں 50 سے زائد افراد کی اموات ہوئی ہیں اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا جیسا کہ ہم نے علاقے کا معائنہ کیا اور لوگوں سے بات کی، ہمارے پاس اب تک کی معلومات کے مطابق تقریباً 51 یا 52 شہداء اور 40 زخمی ہیں، اور چار سے پانچ مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔
پکتیکا کے برمل ضلع کا لامن گاؤں، اس علاقے کے چار حصوں میں سے ایک ہے، جو منگل کی شب پاکستانی جنگی طیاروں کا نشانہ بنا۔ مقامی باشندوں کے مطابق، ایک خاندان کے 16 افراد میں سے، 15 افراد جان سے گئے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی سرزمین پر حملے سے پہلے پاکستان ایران کے زیرانتظام مغربی بلوچستان میں بھی ’ مہاجرین ‘ حملے کرچکا ہے جس میں شیرخوار بچوں سمیت ایک خاندان مکمل پر تباہ ہوگیا۔اس حملے میں پرامن سیاسی جماعت بی این ایم سے تعلق رکھنے والے دوستا محمود کے گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بی این ایم کے ترجمان نے اس موقع پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا دوستا محمود ، مشرقی بلوچستان کے علاقے پروم ضلع پنجگور کے رہائشی تھے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے پروم کے علاقوں میں مسلسل فوجی کارروائیوں سے تنگ آکر خاندان سمیت پروم سے چند کیلومیٹر کے فاصلے پر ایران کے زیرانتظام مغربی بلوچستان میں شمسر ( حق آباد ) نامی گاؤں میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے پاس منتقل ہوئے اور وہاں گذشتہ کئی سالوں سے اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ پاکستانی فوج کے دانستہ حملوں میں ’بی این ایم کے سینئر ممبر چیئرمین دوستا‘ کو پورے خاندان سمیت قتل کیا گیا۔
اس فضائی حملے میں پاکستان کی طرف سے شہری آبادی پر سات میزائل داغے گئے جو مختلف گھروں پر گرے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ اس حملے میں دس نہتے افراد کو قتل کیا گیا جو پاکستانی فوج کے جبر سے جان بچا کر مغربی بلوچستان ہجرت کر گئے تھے ، ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ شہید ہونے والوں میں دوست محمد ولد محمود ( چیئرمین دوستا ) ، ان کی زوجہ شازیہ ، ان کے کمسن بچے : بابر دوست ، ھانی دوست ، چراگ دوست اور پنجگور سے مہاجرت کرنے والے شہیدیونس بلوچ کے خاندان میں سے بلوچ خاتون نجمہ بلوچ ، معصوم بچے فرھاد ولد محمد جان ، ماھکان اور ماہ زیب شامل ہیں ۔
اس وقت پاکستان نے اس حملے کو ’ مرگ بر سرمچار ‘ آپریشن کا نام دیا تھا اور دعوی کیا تھا کہ اس حملے میں سرمچاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان حملوں سے واضح ہے کہ پاکستان خطے میں اپنی عسکری برتری کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک پر اپنی دہشت بٹھانا چاہتا ہے ، جو خطے میں کشیدگی کا مزید ہوا دے گی۔