ماما قدیر بلوچ نے کہا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں پاکستان کے واضح کردار کے باوجود عالمی ادارے پاکستان کے خلاف قابل ذکر اقدامات کرنےسے گریزاں ہیں اور پاکستان عالمی اداروں کی خاموشی دیکھ کر بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ باتیں انھوں نے یہاں جبری لاپتہ افراد اور بلوچ شہدا کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں آئے وفود سے کیں۔
آج کیمپ کو 5676 دن مکمل ہوگئے ہیں اور شال سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکنان زوہیب بلوچ ، نورالدین بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان کی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں میں تبدیلی آئی ہے ، اس سے بلوچ نسل کشی میں تیزی لائی گئی ہے۔چین کے مفادات کے تحفظ کے لیے ریاست بلوچ عوام کے خلاف فوجی کارروائیواں میں انسانی حقوق کی پرواہ نہیں کر رہی۔
انھوں نے کہا یہاں انسانی حقوق کے عالمی ادارے بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں ، جن کی خاموشی کو پاکستان اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی انسانیت کے لیے واضح طور پر سرخ لکیر ہونی چاہیے لیکن پاکستان یہ سب کرنے کے باوجود عالمی سطح پر محاسبے سے بچا ہوا ہے۔ چند سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جبری لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے۔فوجی اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کی کارروائیاں غیرشفاف ہیں ، ان میں شفافیت ہونی چاہیے۔ اور ان کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ جب بھی کسی شہری کو جبری لاپتہ کرنا چاہئیں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کرسکتے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل کے درجنوں الزامات کے باوجود پولیس کا ادارہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) کی غیر آئینی کارروائیاں جاری ہیں جو تشویشناک ہیں۔