بانک کریمہ بلوچ زندگی ،فکر اور جدوجہد  ۔ تحریر رامین بلوچ

بلوچ قومی تاریخ کا اگر گہرے اور زمینی مطالعہ کیا جائے تو اس کا پس منظر شاندار اور قابل فخر ہے. کم از کم ہماری تاریخ کالونائزر کی تاریخ سے بلکل مختلف ہے ۔

کالونائزر (پنجابی ریاست) کے اپنی ہی دانشور اعتراف کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتاہے .لیکن  جب ہمسائیہ قوموں کی تاریخ  اور بلخصوص بلوچ قوم کی تاریخ جب ہمارے سامنے آتاہے تو ہم حیران ہوتے ہیں کہ ان کی کتنی شاندار تاریخ اور تہزیب ہے.جو تاریخ عالم میں ایک گہرے سنہرے انداز میں اپنی حقیقی پس منظر میں موجود رہتاہے۔
   اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بلوچ تاریخ قابض اور مقبوض کے درمیان جنگ یا مزاحمت کی تاریخ  رہی ہے۔آزاد، زندہ رہنے اور اپنی بقاء اور شناخت کی جنگ میں بلوچ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں سے جنگ آزمارہاہے۔حملہ آوروں کے خلاف جنگ بلوچ  سماجی وشعوری ارتقائی عمل کا  منظم حصہ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ  بلوچ نیشنلزم  کی انگلیاں ہمہ وقت تاریخ کے نبض پررہی ہیں ۔بلوچستان ایک وسیع جغرافیہ اور عالمی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے، اور لینڈ لاک ملک نہ ہونے یعنی وسیع ساحلی پٹی کے مالک ہونے کی وجہ سےہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی نظر میں رہاہے ۔بلوچ سرزمین پر  جتنے بھی حملہ آور آئے ہیں۔ بلوچوں نے قومی یکجہتی اور نیشنلزم کے نظریہ اور حوصلوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ہے ۔چائے وہ منگول  ہو ،سائرس اعظم ہو، عرب ہو ،انگریز ہو یاآج کے پنجابی امپرلسٹ ہے۔ بلوچ کی بندوق اور مزاحمت کھبی  بھی خاموش نہیں رہا ، بلوچ کی ڈھاڈری  رائفلیں وقت کی دھول میں کھبی بھی زنگ آلود نہ رہے۔بلکہ ان سے مزاحمت کا شعلہ مسلسل اگلتا رہا۔

بلوچ قوم کی شعور کا لیول بہت بلند رہاہے اگر ہمارے آج کے لکھے پڑھے علمی جائل یہ کہیں کہ بلوچ کی بندوق دوستی یا مزاحمت غلط تھا تو میں کہ سکتا ہوں یہ خود بزدل اور غلام ہے ۔کالونائزر کے ماتحت نرسریوں کی پیداوار اپنی ،”دانشور اسلاف "،کو کیسے غلط کہہ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اسلاف آبائو اجداد اور قومی تاریخی ہیروز نامور اور گمنام ہستیاں نیچر کے ساتھ توازن قائم کرسکتے تھے. گرمی سردی برداشت کرسکتے تھے۔ لیکن غلامی کے ساتھ توازن قائم کرنا ان کی نفسیات میں شامل نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے۔  وہ سمجھتے تھے کہ طاقت ور یا حملہ آور کا مقابلہ صرف طاقت ہی  سے ممکن ہے۔  انصاف کا میزان ان کے نزدیک مزاحمت رہا ہے ۔وہ جائل نہیں تھے بلکہ  عالم تھے۔ وہ حملہ آوروں کی چالبازیوں اور مکاریوں سے آگاہ تھے۔ لکھنا پڑھنا تو ایک ہنر ہے باشعور اور باعلم ہونا اس سے الگ ہے۔ اگر وہ لکھ نہیں سکتے تھے تو اظہار کرسکتے تھے ۔بول سکتے تھے ۔  لڑ سکتے تھے ۔لکھنے اور پڑھنے کی ہنر اپنی جگہ ہی سہی، لیکن ان کی تاریخی جدوجہدکا میراث اور سماجی درسگاہ نے انہیں سکھایا تھا کہ بزدلی خاموشی اور جہل چہمی کا مطلب دشمن کو موقع فراہم کرنا ،اور ان کو طاقت ور کرنا ہوتاہے۔ اس لیے وہ دشمن کو موقع دینے کے حق میں نہیں تھے ۔بے معنی کمپرومائز اور نیگوسیشن  سے پرہیز کرتے رہے اور اپنی اصولی موقف اور مٹی کی آبرو کے ساتھ اٹوٹ رہے۔یہ ان کی دانشمندی،علمی پیمانہ، ہوشیاری اور بہادرانہ کردار رہا ہے ۔الفاظ جب کتابون کی شکل میں نہیں تھے تو سینہ بہ سینہ کتابیں ان کے سینوں میں نقش پاہ تھے ان کے سینوں میں لپٹے علم دفن نہیں بلکہ ان کے سینوں میں  زندہ نظریات تھے ۔

اور یہ جنگ دہائیوں کی نہیں صدیوں کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے ۔بلوچ تھکا نہیں، ہارا نہیں۔ بلکہ ہمیشہ سے شکست  حملہ آوروں کا  مقدر رہاہے ۔بلوچ نے کسی بھی کالونائزر کو اپنے تقدیر سے کھیلنے اور تماشہ بازی کے لے نہیں چھوڑا۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بلوچ کی تاریخ معجزات کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ وقت اور عمل کے سائیکل میں ایک بے رحم بھٹی میں بلوچ جل جل کر کوئلہ نہیں  کندن بن چکاہے۔

بلوچ  کی تاریخ اور سرزمین کھبی بانجھ نہیں رہا ۔بلکہ بلوچ  تاریخ نے اپنی کھوکھ  میں ایسے جانثار اور سپوت جنم دیئے ۔جنہوں نے اپنی لہو سے بلوچ  تاریخ کو عالمی تاریخ میں شاندار مقام دیا ۔یہ بلوچ کی تاریخ ہے کہ بلوچ کھبی کسی سرزمین پر یلغار نہیں کی ۔طاقت ور اور خود مختار ہونے کے باوجود کسی کو نو آبادی نہیں بنا یا۔ بلکہ اپنی وسیع سرحدوں کی حفاطت اور حد بندی میں سستی اور لاپروائی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی خمیر، نیچر میں یہ شامل نہیں کہ وہ کھبی بھی وحشیانہ انداز اختیار کرے۔ کسی مظلوم یا کمزور قوم کو زیر دست لائے۔یا کسی کی زمین  کے فتح کا سوچھے۔فتح یا فتوحات بھی قبضہ گیریت ہے۔ لیکن کچھ مورخین نے بددیانتی کرکے فتوحات کو خوبصورت بناکر پیش کرکے اسے قبضہ گیریت سے الگ رکھا لیکن درحقیقت یہ بھی قبضہ گیریت کی ایک ٹائٹل ہے۔
مہر گڑھ کی عظیم تاریخ اور تہزیب کا خالق بلوچ ہے۔ بلوچستان میں ایسی کئی قلعیں اور دنب اور ٹیلے ہے جو بلوچ کی علم تاریخ اور ارتقاء کی علامت ہے ۔اگر بلوچ بعد میں سائنسی ایجادات یا جدید ہنر و تکنیک سے پیچھے رہے, اس کی بڑی وجہ  حملہ آور تھے ۔بلوچ کے لے حملہ آوروں نے کوئی ایسی ہموا ر  اور پر امن راستہ ہی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنی ترقی خوشحالی یا علم و سائنس کی منازل کی تلاش کرسکیں ۔بلکہ انہیں ہمیشہ سے جنگوں کا سامنارہا۔ بلوچستان ساتھ دہائیوں کی نہیں صدیوں کی جنگ زدہ خطہ رہاہے۔

لیکن انگریز سے جان خلاصی کے بعد  جب بلوچ اپنی نو ریاستی تشکیل کے جانب بڑھ رہے تھے اور ایک وفاق قائم کر چکے تھے۔ دو پارلیمانی ایوان  تشکیل دے چکے تھے۔  انہی آزاد ادوار میں پھر سے ایک کالونائزر کا جو انگریز رنگروٹ زادے تھے، کا سامنا رہا  ۔جو ساٹھ فیصد انگریز فوج کا حصہ تھے ۔ انہوں بلوچ سرزمین پر خونریزی کا ایک نئی سلسلہ جنم دیا اور بلوچستان کی امن و آزادی کو غیر مستحکم کیا بلوچ کی شناخت وجود کی بنیادوں میں ہاتھ ڈالا۔ اسی دن سے سے بلوچ قوم نے پھر سے مزاحمت کا پر خطر راستہ کا انتخاب کیا اور اپنی کشتیاں جلائی اور واپسی کے لے آزادی کے منطقی اہداف کے حصول تک کی جدوجہد کی سوگندھ کی۔ جنگ بندوق کے ساتھ ہو یا سیاسی زرائع سے بندوق کی زبان بھی سیاست ہے۔ بندوق کے پیچھے بھی ایک شعور اور ایک موقف ہے۔ مزاحمت اور دفاع کی یہ جدوجہد جاری ہے ۔

بلوچ قوم  کے لئے آزادی کے پر خطر راستہ کا انتخاب بلوچ تاریخ کو خوبصورت اور شاندار بناتاہے۔سائوتھ ایشیا سمیت دنیا بھر میں بلوچ جہد آزادی کی گونج ہے ۔بلوچ تحریک سول رائٹس کی موومنٹ نہیں آزادی کی تاریخ ہے ۔ایک الگ شناخت کی تاریخ ہے ایک منفردجداگانہ بلوچ آئین و وفاق کی تحریک ہے۔

  بلوچ تاریخ کی کلاسیکل کرداروں کے فہرست سے گہار، لمہ ،یا بانک کریمہ کا نام الگ کیا جائے تو بلوچ تاریخ ادھوری اور نامکمل رہتی ہے۔ آج بانک کریمہ کی چھوتی برسی ہے۔ مجھے میرے ضمیر نے جگاکر قلم تھمادی کہ کریمہ بلوچ کی زندگی فکر اور جدوجہد کے بارے میں کچھ زیر قلم لائیں ۔ اور اس ہستی کو یاد نہ کرنا ممکنہ طور پر اپنی ہیروز کی یادگاری کردار سے بے پروا ہونا ہے جو نا انصافی ہے ۔ جسے فطرت نے قلم سے نوازا ہے۔ اور جسے فطرت نے اظہاریہ کا موقع دیا ہے۔ وہ اس موقع کو خالی نہ چھوڑے کچھ قلم کو یا آج ڈیجیٹل دور ہے لکھائی کاغز سے سکرین میں لپٹاہے ۔  تو چاہیے کہ کی بورڈ  کوشہیدوں کے لال خون میں ڈبودے۔ تاکہ آزادی کی یہ گل لالہ ہیروز کے بارے میں ہمارے نسل نو کچھ جانکاری حاصل کریں ۔بانک کریمہ کا فکری و نظریاتی کردار  تاریخ کے ماتھے پر جھومر کی طرح روشن اور تابندہ ہے۔ آج  سے چار برس قبل  بانک کریمہ بلوچ کی ٹورنٹو کینیڈا میں قتل  کا واقعہ کوئی پر اسرار اساطیری کہانی نہیں ۔بلکہ ایک حقیقت ہے کہ کریمہ بلوچ کو کون؟ کس نے؟ اور کیوں؟ قتل کی. ہزاروں میل دور کریمہ بلوچ کے قتل میں ملوث عناصر کون ہوسکتے ہیں؟ یہ کوئی پر اسرار یا نا معلوم واقعہ یا حادثہ نہیں. جب کریمہ بلوچ کی گمشدگی کی دودن بعد اس کی جسد خاکی ٹورنٹو کی ایک بے رحم جھیل سے ملتی ہے تو ہر آنکھ اشکبار ہوتاہے .اور  قاتل کے پائوں کے نشانات کا سراغ نہیں چھپ سکتا ۔اس پر مٹی نہیں پڑتی۔  کریمہ بلوچ کی شہادت یہ کوئی حادثاتی یا معمولی  واقعہ نہیں۔ بلکہ بانک کریمہ بلوچ کو ان کی نظریات ۔ تعلیمات اور اندرون ملک و بیرون ملک مسلسل قومی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ اور یہ پنجابی کالونائزر کی بلوچ نسل کش ایجنڈا کا تسلسل ہے۔ اپنی شہادت سے چند دن پہلے بانک کریمہ بلوچ نے  اپنی ایک تقریر میں انکشاف کیا تھا کہ ریاستی جاسوس اور سراغ رساں ادارے ان کے آس پاس رہائشی علاقوں میں آباد ہو رہے ہیں۔جو کہ یقینی ہے کہ ان ہی اداروں نے کریمہ بلوچ کو قتل کرکے ان کی لاش کو جھیل میں پھینک کر ثبوت مٹانے کی کوشش کی ۔لیکن بلوچ کا لہو چھپتا نہیں۔ بلوچ کے قاتل اپنی پہچان خود کرواتے ہیں ۔
اس سے قبل  بلوچ ادیب دانشور اور پولیٹیکل ایکٹوسٹ ساجد بلوچ کا لاش ان ہی ملک سے  مل جاتا ہے۔ اس کے بعد کریمہ بلوچ کی لاش ۔

یاد رکھے یہ معمول کے واقعات نہیں ہوتے۔ بلکہ ریاست بلوچ تارکین اور آزادی کی جدوجہد کرنے والے ساتھیوں ۔کامریڈوں اور جہد کاروں کو بیرون ملک اپنی جنگی بربریت کا نشانہ بنانے کی منصوبہ پر عمل پیرا ہیں ۔

۔لیکن  بلوچ ورنااور بلوچ بہنیں یاد رکھیں یہ بازیچہ اطفال نہیں ہے ۔یہ ایک مکمل قومی  آزادی کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں شہادتیں اور نقصانات کا ہونا ناگزیر ہے۔  ہمیں ہمہ وقت ایسے پر مصائب غیر معمولی واقعات کا سامنا کرنا ہوتاہے۔ایسے واقعات کو فیس کرنا تو اب معمول بن چکا ہے ۔جبری گمشدگیوں کا لامتنائی سلسلہ فیک انکائونٹرز میں شہادتیں ۔سیاسی ایکٹوسٹ کی اندرون وطن اور بیرون وطن پروفائلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔کب کون اور کیسے نشانہ بنے یہ بلوچ اور بلوچستان کی آزمائش ہے۔
لیکن ہمیں  ایسے بہادر سپوتوں  کی موت پر سوگ نہیں منا نا چاہیے ۔اور نہ ہی انہیں رسمی خراج عقیدت پیش کرکے اپنی حصہ کے زمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنا چاہیے ۔بلکہ ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ ان کی مشن راستہ اور جدوجہد کو اپنا نا چاہیے تب جاکر حقیقی خراج عقیدت کا حق ادا ہوجاتاہے۔

کریمہ بلوچ ایک فرد نہیں ایک درسگاہ تھی ان کی قتل ایک فرد پر حملہ نہیں تھی۔بلکہ تحریک آزادی کی نیوکلیس پر وار تھی۔ تحریک کی اکیڈمک امیج پر حملہ تھا۔حملہ کرنے والے ایک آواز ایک نظریہ اور ایک مدرسہ فکر کو مٹانے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن  یاد رکھا جائے  کالونائزر کی چیرہ دستیاں ناکام ہے کسی نظریاتی انسان کو جسمانی طور پر ختم کرنے سے ان کی آدرش و فلسفہ کو نہیں مٹایاجاسکتا۔ ان کی مقصد حیات کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ان کی نظریاتی اساس کو نہیں روکا جاسکتا۔ اور آزادی کے سنہرے سورج کو طلوع ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ تاریخ کی کسوٹی پر ہمیشہ بہادر اور نظریاتی طور پر مضبوط اعصاب کے مالک شخصیات قومی ہیروز  بلآخر اپنی صداقت ثابت کرکے آنے والے نسلوں کو بے رحم جارحیت سے پاک اور آزاد سماج حوالہ کرتے ہیں ۔

بانک  کریمہ بلوچ کی قومی تحریک میں فردی کردار سے لے کر ادارہ جاتی کردار کو سامنے رکھی جائے تو وہ حالیہ بلوچ تحریکی ادوارکے  ایک عظیم  بلوچ خاتون اور سیاسی  راہنماءتھی۔ وہ اعصابی طور پر ایک مضبوط اور پر حوصلہ خاتون راہنماء  تھی ۔بانک کریمہ کو  بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد وراثت میں ملی تھی یہ میراث ان کی خاندان کی قربانیاں تھی ۔ شہید خالد بلوچ اور استاد واحد کمبر کی جہد و عمل تھی اس شبہیہ میں کریمہ بلوچ جیسے بہادر بہن پیدا ہونا ممکن تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس فکری ورثہ کو  آخری سانس تک قومی امانت کے طور پر سنبھالی۔
بانک کریمہ بلوچ  کم عمری میں  بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور بلوچ نیشنلزم کی طرف مائل ہوئی ۔ اور تمام عمر اسی جدوجہد میں رہ کر  تلخی حالات میں  زندگی  گزاری۔ بی ایس او کی چھپن سالہ تاریخ میں اولین خاتون چیئر پرسن کا اعزاز اپنے نام کرلی۔وہ اپنی انتھک صلاحتیوں۔ جفاکشی اور بے لوث قربانی سے بھر پور جدوجہد کے زریعہ بلوچ خواتین کو متحرک کیا. بلوچ عورتون اور بہنوں کو گھر گھر جاکر تحریک کا ساتھی اور ہمدرد بنائی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم بی ایس او کے کچھ دوست 2005میں تربت کے تنظیمی دورے پر نکلے تھے۔ تو ہمیں معلوم ہوا کہ تمپ میں بانک کریمہ بلوچ کے گھر پر خواتین کی ایک نشست کا انعقاد کی گئی۔ اور سیاسی سرکلوں کی بازگشت تھی ۔ ۔اس وقت بانک کریمہ چھوٹی عمر کی تھی۔ لیکن فکری اپروچ  اتنی بلند تھی کہ وہ خواتین کو موبلائز کرکے اپنی قومی فریضہ اور زمہ داریوں کا  ایماندارانہ حق ادا کررہی تھی۔ جب ہم نے وہاں تمپ میں ایک ہائی سکو ل میں اپنے نودربروں کے ساتھ تنظیمی احل احوال کررہے تھے۔ تو ہم حیران ہوگئے کہ ہمارے یہ محدود تنظیمی نشست ایک جلسہ یا ایک سیمینار کی روپ دھار لی۔ وہاں  کےعام عوام بھی ہمیں سننے کے لیے آئے تھے۔ اور سینکڑوں کی تعداد میں سکول کی ٹیچرز اور ہیڈماسٹر شریک دیوان تھے ۔اور ایسے لوگ بھی ہمارے دیوان میں شریک ہونے کے لیے جوق در جوق آئے جو بیساکھیوں پر تھے۔ معزوری کے باوجود بھی وہ آئے تھے۔  ہم سے سوال جواب کا سیشن ہوا ۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تمپ میں لوگ سیاس اور نظریاتی طور پر اس قدر  فکر و شعور سے لیس تھے۔ ان کی سوچ میں پختگی اور بلوغت تھی۔اور آزادی کی حوالہ سے  ان کی حوصلہ اور امید  دیدنی تھی ۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس بیداری کے پیچھے بانک  کریمہ بلوچ اور ان کی خاندان کا مرکزی کردار ہے ۔

خیر  ہم نے مند ۔بلیدہ اورتمپ کا دورہ کئے۔ لیکن تمپ نے ہمارے بازئوں میں وہ طاقت جگامنتقل کی کہ ہمارے حوصلہ چلتن کی چوٹیوں کی طرح بلند رہے۔ ہم نے عہد کیا کہ ہم یہ جدوجہد ہر قیمت پر جاری رکھیں گے ۔ہمارے لوگوں کی پیشانیوں پر امید کا کرن  نظر آرہاتھا ۔

جب عوام حوصلہ بن جاتاہے تو قیادت اپنی شہادت تک پیچھے نہیں ہٹتا۔
میں یہاں بانک کریمہ بلوچ کی برسی کے مناسبت سے انہیں صرف فرضی۔ قلمی یا رسمی خراج تحسین پیش نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان کی  کل سیاسی کردار جوان کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ ان کی نظریات و فکر کو امر بناکر تاریخ میں وہ مقام دے چکی ہے ۔کہ میرے جیسے عام قلم کار جوصرف لفظوں کو سینے اور پرونے کا ہنر جانتا ہو، وہ میرے دو لفظی خراج تحسین کے محتاج نہیں۔ہاں اسے خراج تحسین پیش کرنے سے میری زمہ داریاں بڑھ جاتی ہے۔میرے قلم اور لفظوں میں قوت آجاتی ہے ۔

بانک کریمہ کا کردار امر ہے۔ ان کی نظریات امر ہے۔ ان کی شہادت کے دن کو  مرثیوں کی نظر نہیں کرنی چاہیے۔ ان کی شہادت کے دن کو بطور سوگ  نہیں منانی چاہیے۔
بلکہ یہ  ان کی زندگی اور نظریات کا دن ہے۔ ان کی شہادت  کی تاریخ  اس کی جنم دن ہے۔وہ مرا نہیں ۔بلکہ اپنے دشمنوں کی جھلسےہوئےں سامراجی چہرے کو دفن کردیا۔

وہ آخری سانسوں تک  اس جبری موت کو مات  دےکر اپنی نظریات کو اپنی سانسیں دیں۔ ان میں انقلابی روح پیدا کی۔ ۔جب قاتل انہیں ایک بے رحم جھیل کا حوالہ کرکے ان کی سانسیں ختم کرنے کی کوشش کرتےہیں تو وہ ان لہروں میں تیراکی کرتے ہوئے تاریخ میں امر  ہو جاتی ہے ۔

بھلا ہزاروں قبرستانوں میں مدفون لوگوں  میں کریمہ بلوچ  کیوں منفرد اور زندہ اور امر ہے۔اس لیے کریمہ بلوچ نے جس قومی جدوجہد کے پاداش میں اذیتیں سہیں ۔اور آخر تک جلاوطنی کے زندگی گزارتے ہوئے اپنی آواز ۔لب و لہجہ فکرو نظریات پر ڈٹے رہے۔ جب وطن میں تھا گھر گھر جاکر  بلوچ بہنوں کی شعوری بیداری میں تیزی لائی۔ جلسوں میں خطاب کی۔ سرکلوں میں بولتی رہی ۔جلسوں میں تقریریں کی ۔مظاہروں میں صف اول میں رہے سیمیناروں میں نمائندگی کی۔ اور سب سے اہم کردار جو ان کی زندگی اور افکار کا مرکز رہی ۔وہ یہ تھی کہ اس کی جدوجہد اور فزیکلی کردار نے بلوچ سماج سے صنفی و حیاتیاتی فرق کا خاتمہ کرکے بلوچ بہن اور بھائیوں کے لے یک صفی جدوجہد کی سنجیدہ  رائیں کھولیں۔ اور بلوچ سماج سے ان رجعتی خیالات کا خاتمہ کردیا کہ بلوچ عورتیں کیوں باہر نہیں آسکتے؟ انہوں نے بلوچ خواتین کو شعوری طور تحریک میں حصہ دار کیا۔ ایک مرکزیت اور ایک نیوکلیس دی ۔ .

اس کی افسوس ناک موت شہادت یقینا ہمارے لئے لمحہ غم وصدمہ تھا. لیکن وہ اپنے زندگی میں جتنے کھٹن لمحوں میں حوصلوں سے بھر پور کام کئے تھے ،اس کا حاصل وصول آج کے بلوچ بہنوں کی تحریک آزادی میں حصہ داری اور بھر پور شمولیت ہے۔
بلوچ قومی جدوجہد جزوقتی اور حادثاتی تحریک نہیں۔ اور یہی کریمہ بلوچ نے ثابت کردکھایا کہ یہ ایک مسلسل عمل ہے ۔آخری فتح تک کی جدوجہد ہے۔یہ دوسالہ یا چار سالہ حلف و سوگندھ کا نام  نہیں بلکہ یہ زندگی کی آخری سانسوں تک کا سوغند ہے ۔  یہ جہد مسلسل ہے ۔یہ۔طویل۔المیعاد عمل ہے اس میں ثابت قدم ہونا شرط اولین ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کی اکیڈمک و سمبولک کردار کو کالونزر چاہتے ہوئے بھی تاریخ کے تختی سے نہیں مٹاسکتا۔

بانک کریمہ بلوچ اگر جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن ان کی نظریات کا عہد زندہ  ہے۔ آج بلوچ خواتین کی ایک بڑی کھیپ کریمہ بلوچ کی فکری میراث کا  تسلسل  برقرار رکھتے ہوئے اس کی سنت اور تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر جہد مسلسل کا حصہ ہے ۔اور اس مرحلہ وار جدوجہد کا خلاء خالی نہیں۔

بلوچ خواتین راہنماء اور ہماری بہنیں ڈاکٹر شلی بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ،سمی دین بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ سمیت ہزاروں کی تعداد میں ہماری بہنیں اپنی اپنی زمہ داریوں کا حصہ ادا کرتے ہوئے قربانی کے اس پل صراطی و خارداری جدوجہد کو لے کر قومی اہداف کے حصول کے لے بے پناہ قربانیاں دے رہی ہیں۔
کریمہ بلوچ جیسے کئی بلوچ بہنوں کی سیاسی و قومی کردار پر درجن بھر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ کئی بہنیں جو فرنٹ لائن پہ نہیں گمنامی میں کام کررہے ہیں ان کی کردار یاداشتیں اور قربانیاں بلوچ تاریخ کے سنگم پر ایک میراث رکھتے ہیں۔

یہ یاد رکھا جائے کہ کریمہ۔بلوچ کی وراثت بلوچ خواتین کی جدوجہد مین زندہ ہے ۔ان کی نظریات ان کی تعلیمات اور انقلابی روح بلوچ سماج کے گہرائیوں میں اپنی وجود رکھتی ہے۔ یہ جدوجہد جو پنجاپی ریاست کے خلاف ساتھ دہائیوں کا تسلسل ہے ۔لیکن حالیہ دو دہائیوں میں بلوچ خواتین جس تعداد میں اپنی شمولیت اور حصہ داری کے زریعہ تحریک کو جو قوت فراہم کی ہیں ۔ اس کی مثال ماضی میں بلوچ سماج میں شاذو نادر   دکھائی دیتی ہے ۔کسی کی فردی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جس سمبولک اور منظم تنظیمی و جماعتی شکل میں آج بلوچ خواتین تحریک میں حصہ دار ہے وہ مثالی ہے۔  وہ بلوچ یکجتہی کمیٹی کی صورت میں ہو یا بلوچ وومن فورم کی شکل میں ہو۔ ان اداروں نے جدوجہد کی رخ و سمت میں وہ رو ح پھونکی کہ کون مرد ؟اور کون خاتون؟ کے اس صنفی شناخت کو ختم کرکے اپنی واحد قومی و سماجی شناخت کو بلوچ بلوچیت اور بلوچ نیشنلزم میں پیوند کیا.

خواتین کی یہ شعوری شمولیت ایک طویل تاریخی عمل سے گزر کر اس عہد کو پالیا ہے اس کا کریڈٹ اگر شہید کریمہ بلوچ کو نہ  دیاجائے تو اور کس کو دیا جائے 
بلوچ بہنوں کی اس قدر منظم حصہ داری بلوچ تحریک کو نہ صرف تازہ دم کیا ۔بلکہ ایسے خواتین جن کی گود ان کی بچوں کے مدرسہ فکر ہو تو پھر بلوچ وطن کو زیادہ دیر تک مقبوضہ نہیں رکھا جاسکتا۔ جب بلوچ خواتین اور مائوں و بہنوں کی تحریک سے  ہمراہ داری جدوجہد  آزادی کے منطقی
حاصلات کے لے راہ ہموار عمل ہے ۔

تحریک کے اس لمحات میں خواتین  سیاسی قیادت اتنا ہی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے جتنا کردار مسلح محاز پر کمان کرتے ہوئے ایک فوجی قیادت کی ہوتی ہے قومی آزادی کی جدوجہد انتخابی مشینری یا کمپئین نہیں ہوتا بلکہ ان کے اہداف ،مقاصد ۔لائحہ عمل اور سب سے بڑھ کر ایک عبوری ریاست کا کردار ہوتا ہے یہ اپنے پروگرام اور عمل سے عوام کو جیتی تھی ۔عوام کو جیتنا جنگ کے جیتنے کے برابر ہے ایسے لمحات میں ہمارے مائیں اور بہنوں کی بھر پور شعوری شمولیت ہمارے حوصلوں کا خون ہے ۔جب تک شریانوں میں خون گردش کرتی ہے تو انسان کے کل اعصاب کام کرتے ہیں  جب خون رک جاتاہے ,جم جاتاہے, ختم ہو جاتا ہے تو اعصابوں میں توازن نہیں رہتا تو جسم مرجاتی ہے ۔

مائیں ہماری حوصلہ ہے ،بہنیں ہماری قوت ہے اور ہمارے  نسلوں کے مکتب ہے خواتین صرف امور خانہ داری کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ بلکہ اس کی سماجی  قومی اور سیاسی زمہ داریاں ہیں۔ اور جتنا حق آزادی کی جدوجہد میں مردوں کا ہے اتناہی بلوچ خواتین کا ۔

بلوچ خواتین ریاستی چیرہ دستیوں اور بربریت سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔کیونکہ وہ بھی اس سماج کی اکائی ہے ۔اس کے بغیر سماجی تشکیل نامکمل  اورادھوری ہے۔ اور وہ اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے جس منظم تنظیمی صلاحیتیوں کے ساتھ آج بلوچ بہنیں میدان عمل میں ہیں۔ یہی تسلسل پائیدار اور دیر پاہو۔
یہی بانک کریمہ بلوچ کی نظریات و تعلیمات کا خلاصہ ہے ۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بھوک ہڑتالی کیمپ کا 5676 واں دن ، عالمی اداروں کی خاموشی کو پاکستان اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔ماما قدیر بلوچ

اتوار دسمبر 22 , 2024
ماما قدیر بلوچ نے کہا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں پاکستان کے واضح کردار کے باوجود عالمی ادارے پاکستان کے خلاف قابل ذکر اقدامات کرنےسے گریزاں ہیں  اور  پاکستان عالمی اداروں کی خاموشی دیکھ کر بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ