آئیں ایک نظر گوریلا جنگ اور بلوچ جنگ پر ڈالتے ہیں اس سے پہلے طویل تبصرے کی طرف جائیں پہلے گوریلہ جنگ کی اصل ڈیفینشن اور طریقہ کار جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
لفظِ گوریلہ ہپسانوہی زبان سے نکلا ہے جس کا اصطلاح چھاپہ مار ہے اسے یوں کہا جائے چُھپ کر ضرب لگاکر غائب ہو جانا اسے گوریلہ وار فئیر کہتے ہیں اور جدید جنگی دور میں اسے ایک گوسٹ کہہ بھی سکتے ہیں جو اپنے ہدف کو ضرب لگا کر جن(ghost) کی طرح غائب ہو جاتے ہے ، زیادہ تر مدموقابل سے وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے کمی کی وجہ سے گوریلا جنگ طزر اپنائی جاتی ہے لیکن اس جنگ کا سارا دار و مدار حکمت عملیوں پے ہوتا ہے جنکی بروقت سہی استعمال دشمن کو نفسیاتی امراض سے دوچار کرتی ہے ۔

گوریلہ جنگ اُس وقت دشمن کیلئے دردِ سر بن جاتی ہے جب گوریلہ جنگی تمام اصولوں پر پابند رہے کر پوشیدہ رہتا ہے ایک گوریلا فوجی اپنے tactics اور مخفی پن ، جنی پن (ghost) جیسے صفتوں سے لیس ہوتا ہے وہ ایک بے رنگ ،بے نام ، گمنام درویش ہوتا ہے اُس کی دشمن پر چھاپہ مار کاروائیاں اُسی کی بے رنگی اور گمنامی کو متحرک شکل و صورت دیتے ہیں ۔گوریلا فوجی کے لئے سب اہم چیز نظم و ضبط ہوتی ہے جس پر قائم رہتے ہوئے سخت گیر پالیسیاں لاگو اور کھٹن چلیجز کا ڈٹ کر سامنا کرسکتا ہے، گوریلا فوجی اور روایتی فوجی کے درمیان سب بڑی فرق یہ ہوتی ہے ایک روایتی فوجی ہر وقت پلان شدہ ڈاریکشین پر عملدارمد کرتا ہے یا انسٹکشنسز پر محدود ہوتا ہے اُسکی کوئی تخلیقی حس نہیں ہوتی جبکہ گوریلا فوجی اپنی سوچ کو غیرروایتی رکھتے ہوئے ہر حالات کو باریگ بینی سے جانچتے ہوئے جنگی حکمت عملیاں ترتیب دیتا ہے ہر چیز کو نئے پن سے اختیار و سر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے ہر وقت نئے پن، تخلیق کی تلاش میں رہتا ہے کبھی بھی ایک حکمت عملی اور ایک ہی رائے پر قائم نہیں رہتا اسی نئے پن اور تخلیقی سفر پر اُسے ہر روز یکبعد چیلیجز پیش آتے ہیں جس سے ایک گوریلا فوجی (مخفی سرمچار ) کی اصل نشونما ہوتی ہے ۔
چلیں ایک نظر بلوچ گوریلہ جنگ پر دوڑاتے ہیں کیا بلوچ جہدکار گوریلہ ببنے کے اس مشکل پروسس میں کتنے پورے اترے ہیں ، کیا بلوچ جہدکار ایسے جنگی حکمت علمیوں پر کاربند ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں جن سے متاثر ہوکر ہم انکو جن (ghost) جیسے لقب سے نوازیں ۔؟
دنیا میں جب طرزِ گوریلہ جنگ لڑئی جاتی تھی تو بینادی طور پر سپریم لیڈروں کا زیادہ تر توجہ گوریلہ جنگجو کے زہنی تربیت پر ہوتی تھی تاکہ ایک گوریلا فوجی روز مرہ کی زندگی میں جنگی طریقہ کاروں اور زمہ داریوں کو نفسیاتی حوالے سے اپنے اندر جزب کر سکیں اور اُن میں human error کی گنجائش کم ہو سکیں بلوچ جہدکار (گوریلا) ہمارے لئے قابلِ قدر ہیں لیکن اس سچ کو سیاق و سباق سے بیان کرنا اخلاقی فرض ہے کہ بلوچ سرمچار باقائدہ (professional) گوریلا فوجی تربیت حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، ماسوائے کچھ سرمچاروں کے زیادہ تر سرمچار گوریلا جنگی اصولوں اور ٹکٹس کو روندھ رہے ہیں، مثال کے طور پر جہاں ایک سرمچار کو پانی کی ماند بے رنگ ہوکر گمنام رہنا چائیے وہ ٹک ٹاک اور فیس بُک میں فوٹو سیشن، شوقِ لیڈری، نرگیستی سوچ جیسی جراثیمی راویوں کا شکار ہے۔ ایک سرمچار کے اخلاقی و بنیادی اصول کیا ہونے چائیے کیا ایک سرمچار کو شیوا دیتا ہے خود سیمت وہ اُن تمام زرئعے یا راستوں کو شوشل میڈیا میں افشاں کرے جو راز داری کے زمرے میں آتے ہیں ہماری چوبیس سالہ جنگی تجربوں نے ہمیں کونسے سبق سیکھائے ہیں جنگی بیوگرافی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفید حکمت عملیوں کی تشخس ضرورت ہے کیونکہ بلوچ ایسے بے رحم و سفاک ریاست کے مدِموقابل جنگ لڑھ رہا ہے جس کے پاس وسائل، جدید ٹکنالوجی و ساز و سامان بلوچ کے لحاظ ناقابلِ شکست ہے ، لہذا بلوچ سرمچار کو روایتی جنگ کی طرف جانے پہلے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا اور بلوچ سرمچار کی اولی اور آخری کوشش ہونی چائیے وہ مخفی و پوشیدہ رہے کر گوریلا راہندوں کی پابندی کرے یہی دشمن کی سب بڑی ہار ثابت ہوگی ۔۔
جدو جہد تا منزل