بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ، پانک نے نومبر 2024 کے دوران بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کراچی اور بلوچستان کے 15 اضلاع میں 98 جبری گمشدگیوں اور 12 ماورائے عدالت قتل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ صرف ضلع کیچ میں 31 گمشدگیاں رپورٹ ہوئیں، جو کہ دیگر اضلاع کی نبست سب سے زیادہ تعداد ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستانی فوج اور اس کے سہولت کار بدنام ’’آپریشن سائیلنس‘‘ کے تحت ’’ مارو اور پھینک دو ‘‘ کی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں۔ اس عمل میں لوگوں کو زبردستی غائب کرنا، ماورائے عدالت قتل کرنا اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ان کی لاشیں دور دراز علاقوں میں پھینک دینا شامل ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے 12 منظر عام پر آنے والے واقعات میں قتل کیے گئے محمد نواز، غلام بزدار، اور جعفر مری شامل تھے، جنھیں 6 نومبر کو موسیٰ خیل میں اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔ بشیر احمد، جو مئی سے گوادر سے لاپتہ تھے، 23 نومبر کو آواران میں مردہ پائے گئے۔ 16 سالہ اسرار بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کا معاملہ خاص طور پر افسوسناک ہے، جسے انسداد دہشت گردی کے محکمے نے حراست میں لینے کے بعد قتل کر دیا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ فوجی حکمت عملی صرف باغیوں ( سرمچاروں) کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں بلکہ عام شہریوں تک بھی پھیلتی ہے، خوف کی فضا پیدا کرتی ہے اور اجتماعی سزا کا حربہ استعمال کرتی ہے۔ فوج کے ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز، جن میں مجرمانہ عناصر شامل ہیں، بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ یہ گروہ نہ صرف تشدد کی کارروائیوں میں ملوث ہیں بلکہ چوری اور منشیات کی سمگلنگ جیسے غیر قانونی کاموں میں بھی شریک ہیں، اور یہ سب تقریباً مکمل استثنیٰ کے ساتھ انجام پا رہا ہے۔
بلوچستان کے لوگ اپنے پیاروں کے نقصان اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے تباہی کا شکار ہیں۔ پانک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں کی اصل تعداد ممکنہ طور پر زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ نے بین الاقوامی برادری سے فوری توجہ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں نے خبردار کیا ہے کہ ان مظالم کو ختم کرنے اور متاثرہ خاندانوں کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے عالمی مداخلت ضروری ہے۔