جب 18 ستمبر میں کمال جان کو شہید کیا گیا تو کئی دنوں تک میری ہمت نہیں ہوئی کہ میں اس کے کمرے میں جاؤں اور کمال جان کو وہاں نہ پاؤں ۔کئ روز بعد جب میں اس کے کمرے میں گئی تو کمرے کو دیکھ کر میرے اندر ایک عجیب سی وہم چھا گئی ۔
کمرے کی حالت بلکل وہی تھی ۔وہی کتابوں کے ڈھیر، دیواروں پر لگی ہوئی تصویریں ، ٹیبل پر بکھرے ہوئے کاغذ اور کھلی قلمیں اور بکھرے ہوئے سیاہی کے رنگ کو دیکھ کر ہی ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ایک عظیم کامریڈ کا رہائش گاہ ہے۔
میں حیرت سے ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ ٹیبل کے نزدیک آئی اور کتابوں کو دیکھنے لگی ۔ وہاں ڈھیر ساری انقلابی تحریک کی کتابیں ،سنگر کے میگزین ، بی ایس او کی تحریریں اور اخباروں کے کٹے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے ۔ٹیبل کے عین سامنے عظیم انقلابی چی گویرا کا تصویر لگا ہوا تھا ۔ یہ انقلابی روحوں کا ایک کمرہ بن چکا تھا جہاں ہر طرف مزاحمت کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔
سامنے ٹیبل پر مجھے ایک ڈائری نظر آئی ۔میں نے اسے اٹھایا تو میرے اندر ایک عجیب سی ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ کیا میں اسے کھول کر پڑھ لوں یا شاید مجھ جیسے عام انسان ایسی قران کو نہیں پڑھ سکتے ۔میں نے لرزتے ہاتھوں سے ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا ۔وہاں خوبصورت لفظوں میں ‘مادر وطن بلوچستان ‘لکھا ہوا تھا ۔ دوسرے صفحے پر بی ایس او آزاد کا ایک پوسٹر لگا ہوا تھا اور نیچے ایک تاریخ درج تھا ۔ دوسرے صفحات میں کئی دنوں کے واقعات لکھے ہوئے تھے۔
” آج کئی مہینوں بعد میں اپنے اماں سے ملا تو محسوس ہوا کہ دنیا کا خوبصورت رشتہ ایک ماں اور اس کے بچے کا ہوتا ہے ۔یہ پیار اور یہ سکون دنیا کے کسی شے میں نہیں ملتا جو ایک ماں کی گود میں ملتا ہے ۔مگر میری پیاری اماں، میری ماں صرف ایک آپ نہیں بلکہ ایک اور ماں بھی ہے اور دونوں کا پیار میرے لیے انمول ہے ۔ماں ہو یا مادر وطن دونوں کے تکلیف میں ،میں قربان ہونے کے لیے تیار ہوں” ۔
مگر کمال! آپ کا پیار مادر وطن کے لیے شاید کچھ زیادہ تھی یا وہ زیادہ انمول تھا اس لیے آپ نے اسی کو چنا۔۔۔۔۔
میری آنکھوں کا تارا وہ بھی میری زندگی
اے زندگی تجھے قاتل کے حوالے کر دوں
ان الفاظ کو میں صرف پڑھ سکتی تھی مگر محسوس کمال جیسے وطن پرست کو ہوتا تھا کہ وطن کے لیے زندگیاں قربان کردینا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ یہ آرزو ہر ایک انقلابی کا ہوتا ہے کہ اپنی زندگی وطن کو خود سونپ دے۔
اپنے زندگی کو خود ہی قاتل کے حوالے کرنا شاید دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے مگر جب یہ للکار وطن کے لیے ہو تو زندگی کو دشمن کے ہاتھوں ختم ہوتے دیکھ کر بھی کوئی رنجش محسوس نہیں ہوتی۔
ڈائری کے کئ صفحات پر بی ایس او آزاد کے تنظیم کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہوا تھا ۔کس طرح ایک اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن میں کام کیا جاتا ہے ،اسے کسی علاقے میں لاگو کیا جاتا ہے ،لوگوں کو اس کا حصہ بنایا جاتا ہےاور انھیں غلام ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے۔
کمال صرف ایک انقلابی جہد کار نہیں تھا بلکہ ہمیشہ مسحلہ جہدوجہد پر زور دیتا تھا ۔ڈائری میں کئی جگہوں پر ایسے واقعات لکھے تھے جو اس دوران لکھے گئے تھے جب انقلاب ایک نئے فیز میں داخل ہو رہا تھا ۔2013 سے 2015 تک بی ایس او آزاد کی تحریک جس تیزی سے پھیل رہی تھی مسلحہ کارکردگیاں بھی بڑھ گئی تھیں۔ ان سب چیزوں کی ترتیب اور بندوبست ڈائری میں درج تھے ۔
بلوچستان کے ہر شہید کی ایک الگ کہانی ہوتی ہے ۔ کوئی ریاست کا ظلم اور جبر سہہ کر ،کوئی دشمن کے ہاتھوں خود کو یوں غلام ہوتے دیکھ کر تو کوئی وطن کی عشق میں مبتلا ہو کے اسے آزاد کرنے کے سفر میں اس راہ کا ایک مسافر بن جاتا ہے۔اسی طرح کمال جان بھی وطن کی عشق میں اس طرح مبتلا تھا کہ وطن کے ازادی کے علاؤہ کوئی چیز اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔
میں صفحے پلٹتی گئی اور ہر صفحے پر کوئی تحریر ،کسی انقلابی کا قول ،کسی کامریڈ کا تصویر یا کسی کامیاب دن کا تاریخ لکھا ہوا تھا ۔
ایک تحریر جو بلکل نیا تھا ۔” آ ج علاقے میں دشمن کا استقبال گولیوں سے کیا گیا ۔ شاید یہ کسی جنگ کی شروعات ہو۔۔۔تاریخ (2015-08-08)
یہ تاریخ کمال جان کے شہید ہونے سے دس دن پہلے کی تاریخ تھی ۔جس دن گولیوں کے آواز نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ہر صرف ڑر اور خوف پھیلی ہوئی تھی کہ آج دشمن کا ایک بہت بڑا لشکر علاقے میں داخل ہوگا اور کئی لوگ مارے جائیں گے ،کئی بیگواہ کئے جائیں گے ۔مگر ہوا کچھ بھی نہیں ۔دشمن کو آنے سے پہلے مار کر بگھا دیا گیا۔اس دن وہ بہت دیر سے گھر آیا اور ہم اسکے آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ شاہ زیب (شہید حمید) بھی تھا۔ دونوں جب کمرے میں داخل ہوئے ان کے چہرے پر ایسا جوش اور چمک تھا جیسے وہ اپنا کوئی قیمتی مقصد کامیاب کر کے آ رہے ہوں۔ کمال نے بے فکری سے بیٹھ کر ہستے ہوئے کہا۔”کیا کہتے ہو شاہ زیب ! اب ایک کڑک چائے ہو جائے ؟” شاہ زیب بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا ۔
ڈائری ہاتھوں میں لیے میں انھی سوچوں میں گم تھی جیسے دونوں میرے سامنے بیٹھ کر چائے پی رہے ہوں اور ایسی کسی مشن کے بارے میں باتیں کر رہے ہوں۔ تب میں ان کے کپ میں اور چائے ڈال کر کہتی ”جوانوں جلدی نہ جانا ،ابھی بہت سے کام باقی ہیں ۔ تمہارے بہنوں کی بہت سی خواہشیں ادھوری ہیں ۔بہت سے لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے”.
مگر نہیں! اسے بہت جلدی تھا ۔بیس دن بعد عید تھا مگر وہ عید آنے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا ۔وہ اپنے ہاتھوں پر مہندی لگا کر اپنے بہنوں کی خواہشیں پوری کرنے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی اپنے ذاتی زندگی کے کسی خواہش کو مکمل کرنے کے بارے میں سوچ سکتا تھا ۔
وہ شاشان کے دامن میں ایک بار پھر دشمن سے روبرو ہوا ۔وطن کی آزادی کے خاطر قربان ہونا اس کا منزل بن چکا تھا۔ اس نےبسامنے سے دشمن کو للکارا اور وطنِ مادر کے مٹی میں اس کا روح ایک خوشبو کی طرح پورے بلوچستان میں پھیل گیا۔
میری آنسوں گِر کر ڈائری کو بیگھا کر رہے تھے ۔اب مزید صفحے پلٹ کر پڑھنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔ میں نے ڈائری کو بند کر دیا ۔اوپر کوور پر اس نے اپنا ایک تصویر لگایا ہوا تھا ۔
وہ مسکرا رہا تھا اور اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔جوانی کا یہ روشن چہرا ہر اس بہن کو رُلا سکتا تھا جس کا بھائی وطن کے اس قافلے کا کوئی مسافر بن چکا تھا۔
یہ ڈائری اس انقلاب کا ایک حصہ ہے۔ میں سوچنے لگی کمال جان کی طرح آج بلوچستان میں کئی نوجوان ایسے ہی اپنے ڈائریوں میں کامیابیوں کے قصے لکھ رہے ہوں گے اور انھی داستانوں سے ایک دن بلوچستان کی آزادی کی کتاب مکمل ہو جائے گی ۔