تاریخ کی برق رفتار فتح ، شام میں بشار الاسد کی اقتدار کا سورج غروب

شام ( مانیٹرنگ ڈسک / ریحان )مشرق وسطی برق رفتار تبدیلیوں کی لپیٹ میں گذشتہ دنوں بشار الاسد کے حامیوں نے ملک کے اہم شہر حلب پر آسانی سے قبضہ کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ خطے میں داعش کے عروج اور پھر مختلف طاقتوں کی باہمی کشمکش کے بعد روس اور ایران کی مدد سے بظاہر بشار الاسد کی پوزیشن مستحکم ہوگئی تھی۔

گذشتہ شب ہم نے تاریخ کی برق رفتار فتح کا مشاہدہ کیا۔شام میں مسلح بغاوت کے زور پر بشار الاسد کا تختہ الٹ گیا ہے۔بشار الاسد کے ملک سے فرار کی خبریں ہیں تاحال یہ نہیں پتا کہ وہ کہاں چلے گئے ہیں اور انتقال اقتدار کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کی گئی ہے۔

جیسا کہ 15 اگست 2021 میں صرف نو دن  میں طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسی طرح شام میں بھی 5 دن قبل حلب شہر پر باغیوں کے قبضے سے اس غیرمعمولی پیشرفت کا آغاز ہوا اور صرف پانچ دن میں شامی باغیوں نے  دمشق پر قبضہ کرلیا ۔افغانستان میں  بھی افغان فوج نے ایک طرح سے طالبان کی راہ میں سرخ قالین بچھائی تھی اسی طرح شامی مسلح باغیوں کے خلاف بھی شامی فوج نے کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں کی۔فوجی جیسے محاصرے اور حملے کا انتظار کر رہے تھے باغیوں کے خلاف ماضی کے فوجی کے وسائل کے استعمال کی کم ہی مثال نظر آئی جیسے ہی کسی شہر کا محاصرہ ہوا شامی فوجیوں نے شہر سے پسپائی اختیار کی ۔گذشتہ رات یہ واضح ہوگیا تھا کہ بشار الاسد کا اقتدار کل کا سورج نہیں دیکھ پائے گا اور وہی ہوا۔

کابل بغیر گولی چلائے طالبان کی جھولی میں پکے پھل کی طرح گراتھا اور دمشق میں بھی جیسے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت سکون اور واضح نتیجے کے طور پر بشار الاسد کی انتظامیہ نے باغیوں کا انتظار کیا اور ان کی فتح کو تسلیم کیا گیا۔

’ عظیم انقلاب جیت گیا ‘ شام کی سرکاری ٹی وی کا اعلان :

شام کی سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر ایک پوسٹ نشر کی گئی جس میں لکھا گیا تھا کہ "عظیم انقلاب جیت گیا ہے اور اسد حکومت گر گئی ہے”۔

اتوار کے روز شامی مسلح دھڑوں نے اعلان کیا کہ انھوں نے دمشق کو آزاد کرالیا ہے اور صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔

مسلح دھڑوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ خدا کا شکر ہے کہ دمشق شہر کو آزاد کرایا گیا اور بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ تمام قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

ملک شام کا تعارف ، فرانس کی کالونی سے آمریت تک :

شام، جسے رسمی طور پر ’’الجمهورية العربية السورية ‘‘ یعنی عربی جمہوریہ سوریا  کہا جاتا ہے، مغربی ایشیا کے مشرقی وسطی کے ساحلی خطے میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ شمال میں اس کی سرحد ترکی سے، مشرق میں عراق سے، جنوب میں اردن سے، جنوب مغرب میں اسرائیل سے، اور مغرب میں لبنان اور بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔ دارالحکومت دمشق، جو دنیا کے قدیم ترین مسلسل آباد شہروں میں شامل ہے، اس کی سب سے بڑی اور تاریخی حیثیت کا حامل شہر ہے۔

شام کی تاریخ تہذیبوں کے گہوارے کے طور پر مشہور ہے، جہاں قدیم سمیری، فینیشین، اور رومی تہذیبوں نے جنم لیا۔ 1946 میں شام نے فرانس سے آزادی حاصل کی، لیکن اس کے بعد سے مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ 1970 سے، ملک میں اسد خاندان کی حکومت تھی، اور آج  ( 8 اگست 2024 )طاقت کے زور پر اقتدار سے بے دخل ہونے والے صدر بشار الاسد 2000 سے اقتدار میں ہیں۔

2011 میں خانہ جنگی کے آغاز نے شام کو تباہ کن صورتحال سے دوچار کر دیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک یا بے گھر ہوئے اور ملک کی بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ اس تنازع میں کئی مقامی اور بین الاقوامی قوتیں شامل ہیں، جن میں شامی حکومت، اپوزیشن گروپس، اور غیر ملکی طاقتیں شامل ہیں، جنھوں نےشام میں استحکام  کی کوششوں کو الجھائے رکھا ۔شام مشرق وسطیٰ میں اپنی جغرافیائی و سیاسی اہمیت کے سبب ایک اہم کردار کا حامل ہے۔

شام میں جیتنے والی قوتیں: ایک متنوع فورس:

حلب کی جنگ میں کئی گروہوں نے حصہ لیا، اور اس آپریشن کو ’ڈیٹرینس آف ایگریشن‘ کا کوڈ نام دیا گیا۔ اس حملے کی قیادت ’’ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس)‘‘ نے کی۔ ایچ ٹی ایس، جسے پہلے النصرہ فرنٹ کہا جاتا تھا، 2017 میں القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ 

ایچ ٹی ایس کے مقاصد 

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو ایرون زیلین کے مطابق، ایچ ٹی ایس کے موجودہ اہداف عالمی نہیں بلکہ مقامی ہیں۔ ان کے بقول، ’’یہ شدت پسند ہیں، ان کی صفوں میں غیرملکی جنگجو بھی شامل ہیں، اور انھوں نے اسرائیل پر حماس کے حملے میں حمایت کی۔‘‘ 

یہ ایک مفاہمت ہے ، دنیا اسلامی انتہاء پسندی کے خلاف اپنا بیانیہ ہار چکی ہے اب اسے وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جا رہا ہے اور شاید اب اسلامی خلافت جیسے نظریے بھی دم توڑ رہے ہیں یا مفاہمت کرکے ماضی کی طرح واضح بیانیہ اختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔

ترکیہ کے حمایت یافتہ گروپس 

اس بغاوت میں ’’ سریئن نیشنل آرمی (ایس این اے)‘‘ نے بھی حصہ لیا، جو ترکیہ کے حمایت یافتہ مختلف گروہوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ ایس این اے شمال مغربی شام میں ترکیہ کی حمایت سے قائم عبوری حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کی کیرولائن روز کے مطابق، ترکیہ نے ان گروہوں کے اتحاد کو مضبوط کیا تاکہ شامی حکومت کے خلاف میدان بدلا جا سکے۔ 

آزاد اسلامسٹ گروپس 

حلب پر حملے میں کئی آزاد اسلامسٹ گروپس بھی شریک تھے، جن میں ’’ احرار الشام ‘‘  اور ’’ نور الدین زنگی موومنٹ‘‘ نمایاں ہیں۔ یہ گروپس شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی دنوں میں بنے اور ایچ ٹی ایس کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔ 

اب کیا ہوگا ؟

ہم نے داعش کے خلاف صف اول میں موجود کرد قوم کے ساتھ عالمی بالخصوص مغربی ممالک کا رویہ دیکھا ۔ واضح ہے کہ وہ قومی ریاستوں کی تشکیل کے خلاف اپنی اجارہ دارانہ پالیسی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ ماضی میں سیرئین نیشنل آرمی شام میں کردوں کے خلاف حملے کرتے رہی ہے اور اب بھی امکان یہی ہے کہ کرد اکثریت علاقے جہاں پر اس دوران کرد اپنا ایک کنٹرول رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں مشکلات کا شکار ہوں گے۔

ایس این اے  امریکہ کے حمایت یافتہ کرد قیادت میں قائم ’’ سریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف)‘‘ کے خلاف بھی کارروائیوں کا اعلان کرچکی ہے، جو شمالی حلب میں موجود ہے۔

استحکام اور امن کی امید :

شام میں باوجود اس کے کہ مختلف اسلامی گروپ اور انتہاء پسند اب اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں امن اور استحکام کی امید کی جاسکتی ہے۔کردوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے لیکن اب  ایسے ہی نظام کی بنیاد رکھی گئی ہے جسے عالمی سطح پر مدد فراہم کیا جائے گا۔ جس طرح طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا گیا تھا یہاں بھی القاعدہ  کی باقیات کی حکومت تسلیم کی جائے گی۔ جس طرح افغانستان میں اقلیتوں کو کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی کرد بھی بے یار و مددگار رہیں گے۔

شام جس تیزی سے عالمی خبروں کی سرخیوں پر چھا گیا تھا اتنے ہی تیزی سے واپس معمول کی طرف جائے گا اور ہم خطے میں ایک نئی تبدیلی کا مشاہدہ کریں گے جو شاید اس سے بھی زیادہ حیرت زدہ کردینے والی ہو۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

شال  بی ایم سی کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرنے کے خلاف احتجاج جاری، سیمینار کا انعقاد

اتوار دسمبر 8 , 2024
شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بولان میڈیکل کالج اور دوسرے جامعات کو چھاؤنیوں میں تبدیل کرنے ، طلباء کی ہراسمنٹ، اور کالج و جامعات کی ہاسٹل سمیت بندش اور اداروں سے طلباء کی جبری گمشدگی کے حوالے سے بی ایم سی میں پچھلے بارہ دنوں سے احتجاجی کیمپ جاری ہے۔ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ