بلوچ قومی آزادی کی جنگ میں ہزاروں نوجوانوں، بزرگوں، بچوں اور خواتین نے شہادت حاصل کی ہیں۔ اس جنگ آزادی میں جہاں شہداء کا خون آزادی کو قریب کرتا وہیں پر وہی شہداء اپنی جگہ خالی چھوڑ جاتے ہیں جن کا خلا پر کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ آج میں ایک ایسے شہید ہستی کے بارے میں بتانا چاہوں گا جس نے اپنا فرض زمہ داری سے نبھاتے اپنی جان کا نزرانہ اس دھرتی ماں کو دیا۔
ان کا نام نصراللہ تھا، جو مشکے میں پیدا ہوۓ۔ میری ان سے پہلی ملاقات2014میں گوادر میں ہوی ۔ ان کا مسکرانہ اور بلوچستان کے حالات کے بارے میں سوال کرنا جیسے وہ کسی جستجو میں ہواور اسی وقت سے ان کے خیالات میں تھا کہ بلوچستان کی آزادی صرف مسلح جہد سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ان کی یہی فکر و فلسفہ نے ان کو گوریلا جنگ کی طرف خوش آمدید کہا۔
پھر دوسری ملاقات شاید 2022میں ناگاہو میں ہوی تو مجھے پہلی نظر میں ہی لگا کہ یہ وہی نصراللہ ہے جس سے میں گوادر میں کافی سالوں پہلے ملا تھا لیکن اب یہ وہ نصراللہ نہیں تھا جو جستجو میں تھا آج انہوں نے اپنے سوالوں کے جواب پا لیے تھے اور ناگاہو میں بی ایل ایف کے زمہ دار میجر بن چکے تھے۔ استاد چاکر جیسا ہنس مکھ اور خوش مزاج میں نے زندگی میں کوئی نہیں دیکھا۔
ہر دوست سے ان کی مہر محبت اور دوستوں کو محاز کے طریقہ کار کی سرپدی دینا ان کا ایک اپنا الگ ہی طریقہ تھا۔ دوستوں کے لئے ان کی دل میں مہر بہت ہی زیادہ تھی، جب بھی کوئی دوست کسی کام سے جاتا اور دیر کر جاتا تو شہید استاد بہت ہی فکر مند رہتے اور خود ہی چلے جاتے وہاں کہ شاید سنگت کسی مسئلےمیں تو نہیں۔ وہ نہایت ہی فکر و فلسفہ سے لیس تھے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو مکمل کرتے تھے اور نہایت ہی عمدہ ٹیکٹکس کے ماہر تھے۔ ان کیساتھ وقت بہت تیزی سے گزرا وقت کا پتہ بھی نہ چلتاتھا۔
یہ میری خوش قسمت تھی کہ پورا ایک سال میں نے شہید ماما چاکر کیساتھ گزارا اور ان کے بہت قریب رہا۔ ان کی بے انتہا باتیں جو شاید سب بیان نہ کر پاؤں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ناگاہو جیسے محاز میں شاید ہی کوئی استاد چاکرجیسا ہو یا تھا۔ شہید استاد چاکر کھانا بنانا سے لیکر جنگی حکمت عملی کے ماہر تھے۔ شہید نے 2019 میں ناگاہو کے محاز کو اس وقت سنبھالا جب جھالاوان اور ساراوان میں تحریک ایک دفعہ پھر سے خود کو مظبوط کررہی تھی۔ ان کے اعلی کردار اور حکمت عملی نے بی ایل ایف کو ناگاہو میں پنپنے کا موقع دیااور مضبوط کیا، شاید ہی کوئی اور اس کم وقت اور کم فنانس میں اتنا کر پاتا۔ شاید میں ان کے سب سے قریب تھا اور زیادہ وقت گزارا اسی لیے مجھے بہت ساری ایسی باتوں کا علم ہے کہ انہوں نے بخیر جنگی سازوسامان اور زر کے کیسے محاز کو کھڑا کیا اور صرف 3سالوں میں مضبوط بنایا۔
جب میں پہلی بار ناگاہو پہنچا تو جنگی سازو سامان کی بہت کمی تھی لیکن شہید استاد نصراللہ کی انتھک جہد نے تمام دوستوں کا اسلحہ پورا کیا اور اتنا جدید جنگی سازوسامان پیدا کیا کہ بی ایل ایف کو کافی سالوں تک نئے جنگی سامان کی ضرورت نہ پڑے گی۔ ایک دفعہ باقی تمام سنگت کسی گشت پر گئے میں اور شہید ماما اکیلے 15 دن اوتاخ میں تھے وقت ایسے گزرا کہ پتہ ہی نہ چلا۔
ماما جیسا ہنس منکھ کیساتھ وقت تو سیکنڈوں میں گزرتا کیونکہ میرا اور ان کا زیادہ وقت سیاسی و تحریک بحث اور ہنسی مزاق میں ہی گزرتا وہ مجھے ڈاکٹر کیوٹ کے نام سے پکارتے تھے، ان کا پیار سے ایسے پکارنا آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ جنگ میں وہ پیش پیش تھے انہوں نے جھالاوان اور ساراوان میں ریاست کو ایسا نقصان دیا کہ ریاست بچی دنیا تک یاد رکھے گی۔ استاد نصراللہ نے تحریک کے ساتھ ساتھ ناگاھو محاز میں تمام تنظیموں کے درمیان بے انتہا محبت و مہر پیدا کی اور اتحاد و اتفاق کو مظبوط بنانے میں اپنا اعلیٰ کردار ادا کیا۔
شہید کو سبی سے لیکر قلات تک عام عوام ماما کے نام سے جانتی تھی یہ استاد نصراللہ کی اپنی قوم کے لئے محبت تھی۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ کہیں گشت کے لئے جا رہے تھے کہ راستے میں کسی شہر کے نزدیک ایک اونٹ والا ملا ماما نے اس سے 10منٹ بات کی اور وہ جہد کو عملی طور پر کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ شہید استاد نصراللہ نے ناگاہو محاز پہ جہاں بھی قدم رکھا اپنی سیاست، مہر و محبت سے ہر جگہ دوزواہ پیدا کئے۔ لیکن ماما آپ نے جانے میں جلدی کر دی کچھ اور رہ جاتے تو ایک تو ناگاھو میں تنظیم و تحریک مضبوط ہوتی اور دوسرا تمام بلوچ مسلح تنظیموں میں اتحاد و اتفاق مزید مضبوط سے مضبوط تر ہوتا۔